وژن سیریز۔۔۔۔ آج کے سرمایہ داری نظام میں برا کیا ہے؟ نمبر ایک: سود

pindorabox

جدید اقتصادی نظام انتہائی پیچیدہ اصول و ضوابط پر مبنی ایک ایسا گورکھ دھندا ہے کہ جسے سمجھنا عام آدمی کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن لگتا ہے-  میں سمجھتا ہوں کہ تیسری دنیا اور خصوصی طور پر مسلم امہ کے زوال کی ایک بنیادی وجہ یہی اقتصادی نظام ہے- اسے اچھی طرح سمجھے بغیر حقیقی مسائل کا ادراک ممکن ہی نہیں ہے – اس مد میں عام آدمی کی نظر یا وژن کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر عام آدمی موجودہ دنیا کو سمجھ جائے، یا کم از کم نیو ورلڈ آرڈر کی بنیادی نوئیت سمجھ جاےؑ، تو وہ اس سے نکلنے کے طریقہ بھی ڈھونڈ لے گا-

میری کوشش ہو گی کہ انتہائی آسان الفاظ میں قاری کو اس دنیا کا اقتصادی نظام، اس میں موجود خرابیاں، اس کا اسلامی اقتصادی نظام سے تقابلی جائزہ اور اس تناظر میں پاکستان کے مساٰئل بیان کروں-

سرمایہ داری نظام کو سمجھنے سے پہلے یہ جا ننا ضروری ہے کہ کامیاب اقتصادی نظام کرتا کیا ہے؟ ایک اچھا اقتصادی نظام وہ ہے جس میں مال کسی ایک جگہ قید نہ ہو بلکہ وہ مسلسل حرکت میں رہے- اس مال سے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہوں- کوئی بھی اس دولت پر سانپ بن کر نہ بیٹھ سکے- گویا ہر اقتصادی نظام ایسے طریقے بتاتا ہے جس سے رفتارِ گردش زر  کو بڑھایا جاسکے-

 دولت کا چند ہاتھوں میں رک جانا ایک فطری عمل ہے- مثال کے طور پر کسی دور دراز علاقے میں ایک گاؤں ہے- وہاں “بشیر صاحب” کی دکان ہے- وہ ایک سال میں اس دکان سے 1000 روپے کما لیتے ہیں- ان کا سال کا کل خرچہ 200 روپے ہے- ان کے پاس 800 روپے منافع پڑا ہے- کیا وہ یہ رقم خرچ کریں گے؟ صرف مادی لحاظ سے سوچیں- کسی مذہب کو بیچ میں نہ لائیں- فرض کر لیں کہ دین ابھی اس گاوں میں نہیں پہنچا- آخر بشیر صاحب یہ پیسہ کیوں خرچ کریں گے؟ وہ اسے اپنے بڑھاپے کے لیے ، یا آنے والے کسی مصیبت کے وقت کے لیے رکھ دیں گے- وہ ساری رقم ان کی تجوری میں سڑتی رہے گی- یہی حال گاؤں کے باقی امیر لوگوں کا  ہوگا – اب ایک ایسے سسٹم کی ضرورت ہے جو بشیر صاحب سے یہ رقم نکلوائے اورنکلوائے بھی اس طرح کہ بشیرصاحب بھی خوش رہیں اور باقی لوگ بھی- یہ رقم معاشرے میں سب کے کام آئے-

سو جناب! اقتصادی ماہرین مل کر بیٹھے اور غور وفکر کرنے لگےکہ آخر ایسا کیا کریں کہ بشیر صاحب اپنی رقم خرچ کرنے پر آمادہ ہوجائیں- اس کاحل ان کے مادی دماغوں میں سود کی شکل میں آیا- انھوں نے سوچا کہ اگر بشیر صاحب سے کہا جائےکہ آپ اپنی رقم ایک سال کے لیے ہمیں دے دیں تو ہم آپ کو ہر سال 200 روپے یقینی منافع دیں گے- بشیر صاحب کے لیے اس سے اچھی ڈیل  اور کیا ہو گی کہ کسی محنت کے بغیر ان کی دولت میں اضافہ ہوگا- 800 روپے 1000 ہو جائیں گے – دو سال میں وہی رقم 1200 ہو جائے گی- اس ڈیل کو کارگر بنانے کے لیے ایک باقاعدہ ادارے کی ضرورت تھی- اس لیے حکومتِ وقت نے ایسا ادارہ بنانے کی اجازت دے دی جو لوگوں کو پرافٹ (سود) پر رقم دینے کی ترغیب دے اور پھر یہی رقم آگے زیادہ منافع پر کسی اور کو ادھار دے دے- اس ادارے کو بنک کہتے ہیں-

گاوؑں میں “ملک صاحب” نے ایک بنک بنا لیا اور جا کر “بشیر صاحب” کواکاونٹ کھولنےکی آفر کر دی- بشیر صاحب کو بھی بات پسند آئی اور انھوں نے 800 روپے بنک میں رکھ دیے- بنک نے اعلان کر دیا کہ یہاں سود پر قرضے دیے جاتے ہیں-

اسی گاوں میں ایک باصلاحیت شخص “اسد” رہتا تھا- اسد شروع سے ہی گاڑیوں کی ڈیزائننگ میں بہت دلچسپی رکھتا تھا- وہ ایک فیکٹری لگانا چاہتا تھا مگر سرمائے کی کمی کا شکار تھا- جب اسے آسان اِقساط میں قرضہ لینے کا ذریعہ نظر آیا تو وہ بنک پہنچ گیا- اس نے بینک سے 500 روپے اس وعدے کے ساتھ لیے کہ گاڑیوں کی فیکٹری لگا کر ایک سال میں 1000 روپے لوٹا دے گا- اسد نے بہت محنت سے فیکٹری لگائی- کئی لوگوں کو روزگار مل گیا- بہت جلد فیکٹری نے گاڑیوں کا پہلا سٹاک مارکیٹ میں سپلائی کر دیا-

“قدیر” متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا تھا- وہ کام کے سلسلے میں گاوؑں سے باہر جاتاتھا- اسے ایک گاڑی کی اشد ضرورت تھی- مگر اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے- قدیر نے جب مارکیٹ میں نئی گاڑی دیکھی تو اس کا بھی دل للچانے لگا- اسے کسی نے بتایا کہ بنک آسان اِقساط پر گاڑی دے رہا ہے- قدیر نے آوؑ دیکھا نہ تاوؑ اور سیدھا بنک پینچ گیا- بنک نے 20 روپے کی گاڑی سال میں 50 روپے لوٹانے کے وعدے پر قدیر کو لے دی-

آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ 800 روپے جو بشیر صاحب کی تجوری میں پڑے سڑ رہے تھے پورے گاوں میں پھیل گئے ہیں- فیکٹری لگ گئی ہے – نوکریاں مل گئیں ہیں- گاڑیاں بن رہی ہیں اور بک بھی گئی ہیں – لوگوں کا معیارِزندگی بہتر ہوا ہے- گویا مختصراً، سرمایہ داری نظام کی بنیاد سود پر ہے- ایک جگہ منجمد دولت کو سودی منافع کا لالچ دے کر نکلوا لیا جاتا ہے- پھر یہی رقم آگے بڑے سودی منافع پر دی جاتی ہے- چونکہ دنیا کے تمام بڑے آسمانی مذاہب سود کو حرام قرار دیتے ہیں اس لیے ضروری تھا کہ ایک سیکولر حکومت بنائی جائے- یہ ایک ایسی حکومت ہے جو صاف صاف کہتی ہے کہ سٹیٹ کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں- یقینً اگر خدا کو “ڈیلیٹ” کر دیں تو “سود” کے علاوہ کونسا “انسینٹو” ہے جو کسی امیر سے رقم نکوائے؟

کہانی وہیں سےشروع کرتے ہیں- “اختر” کسی اور گاوؑں میں رہتا تھا- اس نے ہمارے گاوں کی ترقی کا سنا تو امیگریشن لے کر ترقی یافتہ گاوؑں میں آگیا- اختر نے دیکھا کہ گاڑیوں کی صنعت میں ریل پیل (بوم) ہے- اَختر کے پاس سرمائے کی کچھ کمی تھی- وہ بھی بنک پہنچ گیا- بنک اب تک اسد سے 1000 روپیہ وصول کر چکا تھا- بنک نے بشیر صاحب کو 200 روپے منا فع بھی دے دیا تھے- قدیر بھی 50 روپے کی اقساط دے چکا تھا- یہ “کمال” دیکھتے ہوئے بہت سے لوگوں نے بنک میں کھاتے کھلوا لئے تھے- “ملک صاحب”، جو بنک کے مالک تھے، پھولے نہیں سما رہے تھے- ان کے ہاتھ پیسہ بنانے کا ایک ایسا طریقہ لگ گیا تھا جس میں کوئی محنت نہیں تھی- ادھر سے کم سود پر لیا اور آگے زیادہ سود پر دے دیا- بینک نے خوشی خوشی اختر کو بھی قرضہ دے دیا-

اختر نے محنت کی  اور چند ماہ میں ایک نئی گاڑی مارکیٹ میں لا کھڑی کی- یہ کار اسد کی کار سے اچھی تھی اور سستی بھی- اس لیے لوگوں نے یہ کار زیادہ خریدی – یہ بات اسد کے لیے پریشانی کا سبب بنی- اس نے سوچا کہ مجھے گاڑی 15 روپے میں پڑتی ہےاور میں مارکیٹ میں 20 روپے کی بیچتا ہوں اور یہ کمبخت اختر گاڑی 12 روپے میں بنا لیتا ہے- اس لیے مارکیٹ میں 17 روپے کی بیچ رہا ہے- اس کا مطلب ہے کہ مجھے اپنے” اینجینیرنگ پراسیسز”    کو بہتر بنانا ہے- اس کام کے لیے اسد نے اپنا ایک  ریسرچ انسٹیچیوٹ  بنالیا- جہاں گاڑیوں کے ماہر بیٹھ کر  ایجینرنگ کے نت نئے طریقے ڈھوندنےلگے- اختر کو بھی خبر ہو گئی – اختر نے بھی اپنا ریسرچ ڈپارٹمنٹ بنا لیا- یوں گاڑی کی صنعت میں انقلاب برپا ہو گیا – کئی نئے  “سٹینڈرڈ پروسیجرز” بننے لگے- نت نئی ٹیکنالوجی سامنے آنے لگی- اسے عرفِ عام میں “اوپن مارکیٹ کمیٹیشن” کہتے ہیں- گورنمنٹ نے جب دیکھا کہ کار انڈسٹڑی اب ایک “سٹنڈرڈ” بن چکی ہے تو اس نے ایک اینجینرنگ یونیورسٹی بنا دی- اب اختر اور اسد کی فیکٹریوں میں اس یونیورسٹی کے گریجویٹس کام کر رہے تھے-

آپ دیکھ رہے ہیں کہ گاوں کی مارکیٹ “بوم” کر رہی ہے- ایک طرف فیکٹریاں لگ رہی ہیں، دوسری طرف بھاری ریسرچ سے سائنسی ترقی کے نئے در کھل رہے ہیں، یونیورسٹیاں بن رہی ہیں – لوگوں کا معیارِزندگی بہتر ہو رہا ہے- ساری دنیا سے لوگ یہاں آ رہے ہیں- ہر کوئی اپنا “ٹائیلنٹ” یا ہنر لے کر یہاں آ رہا ہے- اسے اب “لینڈ آف آپرچونیٹی” کہا جانے لگا ہے- گاوؑں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے- سب کو رہنے کے لیے گھر چاہیے- گھر کم ہیں اور لوگ زیادہ ہیں – لحاظہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہاوسنگ سوسائٹیز شروع کی جایئں- یوں ایک نئی انڈسٹری کی بنیاد پڑی جسے عرف عام میں ریل سٹیٹ انڈسٹری کہتے ہیں-

“جمیل” کا بہت دل چاہتا تھا کہ اس کا بھی اپنا گھر ہو- اس نئے شہر کی چمک دمک اس کی آنکھوں کو خیرہ کرتی تھی- وہ کار انجینئرتھا اور اخترکی فیکٹری میں کام کرتا تھا- اس نے اپنا کیریر اسد کی فیکٹری سےشروع کیا تھا اور پھر اختر کی فیکٹری والوں نے بہتر تنخواہ پر اسے رکھ لیا تھا- اس کی تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ وہ گھر بنا لیتا- پھر اسے کسی نے بینک کے بارے میں بتا دیا- اس نے بینک سے آسان اقساط پر قرضہ لیا اور گھر بنا لیا-

جمیل کی طرح بہت سے لوگ گھر بنانے لگے- گھروں کی قیمتیں آسمانوں کو چھونے لگیں – سیمنٹ، بجری، لوہے کی انڈسٹری میں بھی بوم آگیا- مزید کئی لوگوں کو نوکریاں مل گئیں- اب ان صنعتوں نے بھی آپس میں مقابلے کے لیے ریسرچ کی – ظاہر ہے، پرافٹس آپ کی پراڈکٹ کے معیار کےمطابق ہی ہوتے ہیں- معیاری اور سستی چیز مارکیٹ پر بازی لے جاتی ہے- یوں مزید یونیورسٹیاں آباد ہونے لگیں- نت نئی ڈگریاں آفر ہونے لگیں- ہر بچہ اپنی مرضی سے ایک فیلڈ چنتا- اور گریجویشن کر کے اس فیلڈ سے متعلقہ انڈسٹری میں چلا جاتا- اب یہ گاوں نہ رہا تھابلکہ ایک “پروگرسیو” شہر بن چکا تھا-

“ملک صاحب” کا بنک ترقی کرتا کرتا ایک “کارپوڑیٹ ایمپائر” بن چکا تھا- اس کی شہر میں ان گنت شاخیں تھیں- ملک صاحب کی طرح شہر میں اور بھی کئی بنک بن گئے تھے- وہ بھی خوب کما رہے تھے-

شہر کی ترقی کی وجہ سے آبادی بڑھ رہی تھی- اس وجہ سے سرکار کی “بنیادی ڈھانچے کے اخراجات” ( انفراسٹکچر سپنڈنگ) بہت بڑھ چکی تھی- سیاست دانوں کو ووٹ لے کر دوبارہ آنے کے لیے یہ رقم چرچ کرنا پڑتی تھی- ہسپتالوں، سرکاری اداروں، سڑکوں ، پانی کانظام، سیوریج ، سرکاری ملازموں کی تنخواہیں اور ہزاروں خرچے اس کا بجٹ تباہ کر دیتے تھے- ہر سال حکومت کی کم آمدن کی وجہ سے ترقیاتی کام التوا کا شکار رہتے تھے- حکومت کم خرچ کرتی تو لوگ ناراض ہوتےاور ووٹ نہ دیتے- آخر حکومت کو بھی بنکوں میں اپنی فلاح نظر آئی- حکومت بھی بھاری سود پر ہرسال بنکوں سے قرض لیتی رہتی اور وقت کے ساتھ ساتھ لوٹاتی رہتی- ملک صاحب اور دوسرے بنکار امیر سے امیر ہوتے جا رہے تھےٓ ان کے پاس کئی بلین روپے تھے- ساری دنیا کی دولت ایک طرف اور ان کی ایک طرف-

اخترصاحب کی کار کی فیکٹری “گروپ آف انڈسٹریز” میں تبدیل ہو چکی تھی- انھوں نے “ریل اسٹیٹ” میں بھی سرمایہ داری کی ہوئی تھی، ان کا ایک گروپ شہر کی ٹاپ “فوڈ چین” بھی چلا رہا تھا- ان کے گودام بھی تھے- ہر نیا کام شروع کرنے کے لیے آسانی سے بنک سے قرضہ مل جاتا تھا-

بنکاروں کو معلوم تھا کہ صنعتکاروں کی صنعت جتنی پھیلے گی میرا بنک اتنا امیر ہو گا- وہ چاہتے تھے کہ صنعتکار زیادہ سے زیادہ انڈسٹری لگائیں- صنعتکارکو پتہ تھا کہ بینک ہے تو سرمایہ ہے- حکومت کو پتہ تھا کہ بینک سے قرضہ ملتا ہے اور صنعت سے ٹیکس- عوام کو پتہ تھا کہ اس گیم میں انھیں نوکریاں، گھر، گاڑیاں سب کچھ مل رہا ہے- ہر کوئی چاہتا تھا کہ یہ نظام قائم رہے- اس لیے سرکار صنعتوں کے اجرا کی کوشش میں لگی ہے- بینک قرضہ دے رہے ہیں- اور لوگ صبح سے شام تک کام کرہے ہیں اور ہر چیز خرید رہے ہیں-

 یوں حکومت، بینکار اور صنعتکار تینوں ہر وہ پالیسی اختیار کرنے لگے جس سے “جی ڈی پی” بڑھتا جائے- جی ڈی پی کا مطلب یہ ہے کہ اگر پچھلے سال 1000 ماچس فروخت ہوئی ہیں تو اس سال 1200 ماچس فروخت ہونی چاہیے- پچھلے سال 500 گاڑیاں فروخت ہوئیں تو اس سال ان کی تعداد 1000 ہونی چاہیے- زیادہ سے زیادہ نئی پراڈکٹس بھی مارکیٹ میں آنی چائیں- اس طرح ہمارا جی ڈی پی اتنےفیصد بڑھ جائے گا- یا سادے الفاظ میں اکانومی کا غبارہ اتنے فیصد مزید پھول جائے گا- حکومت کو ٹیکس اتنا زیادہ موصول ہوگا- اور بینک کے واجبات ادا ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے – بینک کی بھی ڈبل لاٹری نکلے گی-

اس غبارے کے اندر مزید ہوا ڈالنے کے لیے حکومت ، بینکار اور صنعتکار نے جو خاص پالیسیاں مرتب دیں ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں-

سب سے پہلے تو خرچ کرنے کا کلچر متارف کروایا گیا – مادہ پرستی عام کی گئی- لوگ ایک کار لیتے تو اس سے بہتر مارکیٹ میں آجاتی- اسے لیتے تو اس سے بہتر- ایک موبائل لیتے تو اس سے بہتر کی تمنا دل میں آجاتی- برینڈ متارف کروائے گئے- وہی پتلون جو 10 روپے کی آتی تھی اسے برینڈ کے نام سے 50 روپے کا بیچا گیا- جس کے پاس پیسے ہوتے وہ لے لیتا- جس کے پاس پیسے نہ ہوتے وہ للچاتا رہتا- یہاں تک کہ وہ خواہش کو پورا کرنے کے لیے بینک سے کریڈٹ کارڈ بنوا لیتا- اور پھر ہر پسند آنے والی چیز خرید لیتا- لوگوں کو اور خریدنے کی طرف راغب کرنے کے لیے سپر سٹور بنائے گئے- لوگ خریدنے 5 چیزیں آتے اور سپرسٹور کے جھانسے میں 20 خرید کرلے جاتے- مارکیٹنگ پر ریسرچ کی گئی اور نت نئے طریقوں سے لوگوں کو مال بیچا گیا-

 فیکٹریوں میں جب ورک فورس کم پڑی تو عورتوں کو گھروں سے برابری کے حقوق کے نام پر نکال کر کام پر لگا دیا گیا۔ آخر شہر کی پچاس فیصد آبادی جو خواتین پر مشتمل تھی کام نہ کرے تو اکانومی میں بوم کیسے آئے گی؟ اس سے بڑھ کر خواتین کے حسن کو استعمال کر کے مارکیٹنگ اور سیل برھا ئی گئی- کہیں عریاں اشتہار میں خاتون کو کار کے ساتھ کھڑا کیا گیا تو کہیں سیل گرل بنا کر اس کو ادائیں دکھانے پر لگا دیا گیا-

مینوفیکچرنگ مزید بڑھانے کے لیے ہر اس چیز کا پروسیسنگ یونٹ لگایا گیا جس کی شاید ضرورت بھی نہ تھی-  دودھ لوگ گوالوں کی بجائےٹیٹرا پیک ڈبے میں لینے لگے- بچے ماں کے دودھ کی بجائے “پاوڈرڈ ملک” لینے لگے- آٹا بےچارہ فائن آٹا بن گیا- سبزیاں تک کینڈ فوڈ میں تبدیل ہو گئیں- مکئی کارن فلیکس میں تبدیل ہو گئی- پانی تک منرل واٹر بوتل میں چلا گیا- ایک کلچر کے تہت ان چیزوں کو استعمال کرنے والوں کوماڈرن شہری بنا کر دکھایا گیا اور سادہ “نان پراسیسڈ” غزا استعمال کرنے والے کو پینڈو اور “بیکورڈ” کہلوایا گیا-   ایک کلاس سسٹم متارف کروایا گیاجس کے ذریعے امیروں کو ایک مختلف کلاس کی پروڈکٹس بیچی گئیں جو انتہائی مہنگی تھیں- نچلی کلاس والوں کو ان کی اوقات کےمطابق پروڈکٹس بیچے گئے-

مینوفیکچرنگ اور سیل بڑھانے کے لیے ایسی شرمناک انڈسٹریوں کو بھی خوب بڑھایا گیا جنھیں صدیوں سے انسان براسمجھتا تھا- اب خدا تو “ڈیلیٹ” ہو ہی چکا تھا- شراب کا کلچر عام کیا گیا- ڈرگز پھیلائی گیئں- اتنا تو کیا گیا کہ شراب پی کر آپ گاڑی نہیں چلا سکتے مگر گھر میں یا پب میں بیٹھ کر جتنی مرضی پیتے رہیں کیونکہ شراب بلین ڈالر انڈسٹری ہے- سگریٹ بھی بلین ڈالر انڈسٹڑی بن گئی- پورن بھی بلین ڈالر انڈسٹری بن گئی- گویا ہر کام جس سے اس شہر کی  “ویلوسٹی آف منی” بڑھ سکتی تھی وہ سودی بنکاروں، صنعتکاروں اور حکومت نے کیا-  بنک اپنے سٹاف کوہر سال ایک ٹارگٹ دیتا کہ اتنا منافع ہونا چاہیے – اب ظاہر ہے بنک کو منافع بڑھانا ہے تو زیادہ قرضے دینے ہیں- اس کے لیے بنک تین جہتی حکمت عملی اپناتا- ایک طرف تو حکومت کو دبا کر قرضے دیتا- حکومت کو انفراسٹرکچر پر خرچ کرنا ہوتا کیونکہ ووٹ بھی اسی پر انحصار کرتے تھے اور فیکٹریوں کی ترقی بھی اسی پر انحصار کرتی تھی- شہر بڑے ہوتے جا رہے تھے- اس بڑھتی آبادی کے لیےسہولیات فراہم کرنا آسان نہ تھا- ہر سڑک چند سال میں ہی ٹریفک کے لیے وبالِ جان بن جاتی- پھر خطیر رقم سے اسے دو رویا کیا جاتا- پھر چند سال میں بلاک ہوجاتی- بھر فلائی اور یا انڈرپاس بنائے جاتے- اسی طرح گاڑیوں اور فیکٹریوں کے دھوئیں سے بیماریاں بڑھ رہی تھیں- شراب کا بےجا استعمال، ڈرگز،  فاسٹ فوڈ اورپروسیسڈ فوڈ اور بے راہ روی سے ہسپتالوں میں رش بڑھ رہا تھا- خاندان کی بنیادی اکائی میاں بیوی کا رشتہ کمزور ہو جانے سے اکثر بچوں کا خرچہ بھی حکومت اٹھا رہی تھی اور بوڑھے افراد بھی حکومت کے اولڈہاوسز میں رہ رہے تھے- اس کے علاوہ پرانے قرضوں پر سود بھی دینا پڑ رہا تھا- بجٹ خسارہ ختم ہونے کاکوئی چانس ہی نہیں تھا- لحاظہ ہر سال مزید قرضے لینا پڑرہے تھے- دوسری طرف بنک ہر فیکٹری کے مالک کو نیا یونٹ لگانے کا درس دیتے تھےجوجدت ترازی یا “انوویشن” کو استعمال کرتے ہوئے نئی سے نئی پراڈکٹس بنائے اور “مارکیٹنگ” کے سچ جھوٹ کی طاقت سے اسے بیچے- تیسری طرف بینک عام لوگوں یا “کانزیومرز” کو خریدنے پر اکساتا- اس سارے عمل نے معاشرے میں ایک ایسی مادہ پرستی کو جنم دیا کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی- ویسے تواس پورے گیم میں بینکار اور صنعتکار دونوں نے بہت پیسہ بنایا لیکن بینکار صنعتکار سے بہت آگے نکل گیا-

ملک صاحب تو فوت ہو گئے مگر اب ان کے بچوں کی جایدادوں کی مالیت پوری دنیا کی دولت سے زیادہ ہو چکی تھی- ملک صاحب کے بڑے بیٹے نے دس سال قبل سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری شروع کر دی تھی- ہر بڑی کمپنی میں اس کےشئیر تھے- اس نے اسد اور اخترتک  کی کمپنیوں کے  بیس فیصد شئیر اٹھا لیے تھے- سادی بات کریں تو اب بینک بھی اس کا تھا اور کمپنیاں بھی اس کی تھیں- حکومت نے بھی اس سے بہت قرضہ لیا ہوا تھا- اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کوئی پالیسی اس کی اجازت کے بغیر نہیں بنتی تھی- سالوں کی سود خوری کے بعد ان کے پاس اتنا مال ہو گیا تھا کہ پوری سوسائیٹی ان کی غلام بن گئی تھی-

ان دنوں ایک نیا مسئلہ سر اٹھا نے لگا- سالہ سال کی پاگلوں کی طرح مینوفیکچرنگ اور سیل پالیسی سے شہر کے قدرتی ذخائر بری طرح متاثر ہوےؑ- گیس اور تیل کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے تھے- جنگل کٹ رہے تھے- گویا اس جی ڈی پی گروتھ کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ باقی دنیا کے تیل اور گیس کے”ریزورز” پر قبضہ کیا جائے- اب سب بینکاروں نے حکومت کے ساتھ مل کر جارہانہ حکمت عملی بنائی-  جو ملک اپنے ذخائر انھیں دے دیتا وہ دوست ملک کہلاتا اور یہ اپنی دولت کے منہ اس کے لیے کھول دیتے- اس ملک کی حکومت کو قرضے دیتے اور اسے اپنے سرمایہ داری نظام کے ماڈل پر ترقی کرنے پر لگا دیتے- جو ملک نہ مانتا اس کا کوئی دشمن ملک اپنے ساتھ ملا لیتے – ان کی جنگ کروا دیتے- دونوں ملکوں کو اپنا اسلحہ بیچتے – دوست کو سامنے سے، دشمن کو پیچھے سے اسلحہ بیچتے- جب ملک کمزور ہو جاتے تو جا کر اسے دلاسہ دیتے اور ساتھ خوب قرضہ دیتے- اگر کوئی ملک ان کے ماڈل پر ترقی کر بھی جاتا تو اس کے بنکیرز وہا ں کی حکومت سے مضبوط ہو جاتے- ہوں اس ملک کی بھی قسمت چند سرمایہ داروں کے ہاتھ میں چلی جاتی-

 آہستہ آہستہ دنیا کی اکثر حکومتیں ان کے قبضہ میں آ گئیں- انھوں اپنا ہر “پروسیس” ملکوں میں ایکسپورٹ کیا- جہاں لیبر سستی تھی وہاں اپنے کارخانے لگا لیے – ساتھ ہی اپنے بینکوں کی شاخیں اس ملک میں لگا دیں- اپنے “پروفیشنل ایتھیکز” دیے- عورتوں کو آزاد کروایا- شراب، فحاشی کا کلچر لائے- تمام ممالک میں ایک ایسی کلاس بن گئی جو بلکل ان کی “ڈیٹو کاپی” تھی- ان کی طرح بال بناتی، ویسے ہی شیو کرتی، ویسے ہی کپڑے پہنتی، اسی طرح دفاتر میں کام ہرتی، ویسے ہی گھر بناتی اور اپنی مکمل فلاح انھیں کے دیے ہوئے نظام کو سمجھتی- ان لوگوں کو “پروگریسو” اور “ماڈریٹس” کا نام دیا جاتا-

 اب حال ہہ ہے کہ ساری دنیا کی دولت ان کے پاس سمٹ کر جارہی ہے- ان کے شہر کی رانائیاں اس قدر بڑھ چکیں ہیں کہ ہر انسان ان کی طرف للچائی ہوئی نظر سے دیکھتا ہے- لوگ ان کے نظام سے ذہنی اور مالی لحاظ سے اتنا مرغوب ہو چکے ہیں کہ اسی نظام میں اپنی فلاح دیکھ رہے ہیں- اگر کسی کو حقیقت نظر آجائے اور وہ ان کے نظام کے خلاف کچھ بھی بولے تووہ دہشت گرد بن جاتا ہے- اس کی حکومت یا تو اسی ملک کی فوج سے گروادی جاتی ہے ، یا پابندیاں لگا کر اسے تباہ کردیا جاتا ہے، یا امن کے لیے خطرہ قرار دے کر فوجیں اتار دی جاتی ہیں- اب دنیا ان ہی کی ہے- دین بھی انھیں کے لیے ہے- انھیں کو سجدہ ہے- جو ان کے ساتھ مل جائے اس کی جنت ہے- جو ان کے خلاف ہوجائے اسے پتھروں کے دور میں بھیج دیا جاتا ہے-

اس کہانی کومیں نے بہت محنت سے ڈیزائن کیا ہے تاکہ عام آدمی کو سرمایہ داری نظام باآسانی سمجھایا جا سکے –

(جاری ہے)