Margalla Avenue – Good news – Update 4 March 2021

Margalla Avenue – Good news – Update 4 March 2021

Allhumdulilah new tender of Margalla Avenue Islamabad remaining works has been launched by Capital Development Authority. Its a consecutive good news for stakeholders after resolution of dispute between CDA and previous constructor. Lets hope for the best.

It is a very good news for all stakeholders. My best wishes for the beneficiaries.

وژن سیریز۔۔۔۔ (حصہ سوم) ۔۔۔ اسلام میں سود کی حرمت

pindorabox

 

ویزن سیرز کے حصہ اول اور دوم میں ہم نے سرمایہ داری نظام کو ایک کہانی کی مدد سے سمجھا اور اس سے کچھ  اصول اخز کیے ۔ پہلے دونوں حصوں سے سود کی حرمت کے اسباب صاف معلوم ہو جاتے ہیں- سود کی سب سے بڑی برائی دولت کا کچھ ہاتھوں میں جمع ہو جانا اور ایک خاص طبقے کا معاشرے پر مکمل قبضہ جما لینا ہیں-

آئیے ایک آسان مثال لیتے ہیں- فرض کریں کہ ایک ملک میں کل پانچ آدمی رہتے ہیں- ملک کی کل دولت دس سونے کے سکے ہیں- ایک آدمی اعلی طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے پاس تین سکے ہیں- تین آدمی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے پاس دو سکے ہیں- ایک بندہ غریب طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے پاس ایک سکہ ہے- گویا اعلی طبقے والے کے پاس تین سونے کے سکے ہیں اور باقی کل معاشرے کے پاس سات سکے ہیں- متوسط طبقے کا ایک آدمی فیکٹری لگانا چاہتا جس کے لیے اسے تین سکوں کی ضرورت ہے- یہ آدمی اعلی طبقے والے سے سود پر ایک سکہ حاصل کر لیتا ہے- اب اس کے پاس تین سکے ہیں مگر اسے ایک سال بعد اعلی طبقے کے شخص کو دو سکے لوٹانے ہیں- اس نے فیکٹری لگائی اور مال معاشرے میں بیچا – سال کے آخر میں اس نے دو سکے اعلی طبقے کے آدمی کو واپس کر دیے- آپ نے دیکھا کہ معاشرے میں سے ایک ایکسٹرا سکہ بغیر کسی محنت کے نکل کر امیر آدمی کی جھولی میں جا چکا ہے- اب اعلی طبقے کے آدمی کے پاس چار سکے ہیں اور باقی معاشرے کے پاس چھ سکے ہیں-  اب اگلے سال دوبارہ چھوٹے طبقےکا کوئی آدمی سود پر ایک سکہ لے لیتا ہے اور سال کے اختتام پر دو سکے واپس کر دیتا ہے- دوسر ے سال کے اختتام پر اعلی درجے کے آدمی کے پاس پانچ سکے ہیں اور باقی معاشرے کے پاس بھی پانج سکے ہیں- یہی کام اگر ہر سال ہوتا جائے تو ہر سال کے اختتام پر اعلی درجے کے آدمی کے پاس ایک سکہ برھتا جائے گا اور باقی معاشرے میں  سے ایک سکہ کم ہوتا جائے گا- چار سال بعد معاشرے میں صرف ایک سکہ ہو گا اور اعلی طبقے کے آدمی کے پاس نو سکے ہوں گے- لحاظہ ثابت ہوا کہ سودی نظام کی وجہ سے معاشرہ کچھ ہی عرصے میں سود پر قرضہ دینے والے کی گرفت میں چلا جائے گا!

یہی بنیادی وجہ ہے کہ اسلام نے نہ صرف سود کو حرام قرار دیا بلکہ سودی نظام پر اللہ اور اس کے رسول کی جنگ نافذ کی- قرآن میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

“اے ایمان والو! اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو اگر تم مؤمن ہو۔ اور اگر تم نے سود نہ چھوڑا تو اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ ہاں اگر توبہ کرلو توتمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ ظلم کرو ،نہ تم پر ظلم کیا جائے”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورة البقرة

گویا اسلامی حکومت پر فرض ہے کہ وہ اپنے زیرسایہ سارے علاقے سے سود کا مکمل خاتمہ کرے گی اور جو لوگ  مزاحمت کریں ان سے جہاد کرے گی – یہ اس لیے ہے کہ اگر سود ہو گا تو حکومت پھر اسلام کی نہیں بلکہ اسی کی ہو گی جو سود پر منافع کماتا ہے-

غور کریں کہ دین نے اسلامی معاشرے میں زنا اور چوری کی سزائیں تو رکھی ہیں لیکن سود لینے والے کی کوئی سزا نہیں رکھی- یہ اس لیے ہے کہ اگر سود موجود ہے تو معاشرہ و حکومت اسلامی ہو ہی نہیں سکتے-  اسلام جس معاشرے کا تصور پیش کرتا ہے اس میں سود کی گنجائش ہے ہی نہیں – لحاظہ جب سود ہو گا ہی نہیں تو سزا کیسی؟

اسلام زکواۃ اور صدقات کی ترویج سود کے خاتمے کا حکم دیتا ہے- گویا سرمایہ داری نظام کی بنیاد سود اور اسلامی نظام کی بنیاد زکوۃ ہے-

اللہ تعالی فرماتے ہیں:

اللہ سود کو تباہ کر دیتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے اور خدا کسی ناشکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا . ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورة البقرة

اس آیت میں اللہ تعالی فرما رہے ہیں کہ مجموئی اعتبار سے ہمیشہ گھاٹے کا سودہ ہے- اس سے سوسایٹی کو مجموئی دولت میں کمی آتی ہے اور سود پر قرضہ دینے والے کی انفرادی دولت بڑھتی ہے- ہم نے اس بات کو اوپر دی ہوئی دس سونے کے سکے والی مثال سے اچھی طرح سمجھ لیا ہے- آئیے اب پہلے حصے والی مثال کو اسلامی نظام کے تہت لا کر سمجھتے ہیں-

اسی  دور دراز علاقے میں وہی والا گاؤں ہے- وہاں “بشیر صاحب” کی دکان ہے- وہ ایک سال میں اس دکان سے 1000 روپے کما لیتے ہیں- ان کا سال کا کل خرچہ 200 روپے ہے- ان کے پاس 800 روپے منافع پڑا ہے- یہ منافع ان کی تجوری میں ایک سال سے پڑا ہے- اسلامی حکومت نے سود پر پابندی لگائی ہوئی ہے اور ہرسال استعمال سے زائد رقم پر زکواۃ لازمی ہے- سال کے ختم ہوتے ہی بشیر صاحب نے 800 روپے میں سے ڈھائی فیصد زکواۃ ادا کر دی- یہ پیسہ جن غریب لوگوں تک پہنچا انھوں نے اپنے گھر راشن ڈلوانے کے لیے بشیر صاحب کی دکان کا رخ کیا- کوئی کپڑے لینے آ گیا تو کوئی جوتے- بشیر صاحب کی دکان کی سیل میں حیرت انگیز اضافہ ہوا- یہی ہر دوسرے امیر آدمی کے ساتھ ہوا- کسی کو اپنے فارم کے دودھ دہی کی سیل بڑھتی محسوس ہوئی تو کسی امیر کی چکی پر آٹا زیادہ بکنے لگا- وہ پیسہ جو تجوری میں سڑرہا تھا وہ نکل کر غریب تک پہنچا اور پھر واپس امیر تک پہنچ گیا- اس سال سیل برھنے کی وجہ سے بشیر صاحب نے 1000 کی بجائے1200 روپے کمائے- اب ان کی تجوری میں 800 کی بجائے 1000 روپیہ تھا- گویا امیر آدمی کو زکواۃ دینا کا فائدہ ہوا اور ساتھ ساتھ غریب آدمی کا بھی بھلا ہو گیا-

جب بشیر صاحب کی سیل بڑھی تو انھوں نے فیکٹری سے زیادہ مال اٹھانا شروع کر دیا- یوں فیکٹریوں کا منافع بھی بڑھنے لگا۔ نئے یونٹ لگنے لگے- اگلے سال بشیر صاحب نے زیادہ زکواۃ نکالی- اور یوں معشیت کا پہیہ اور بھی تیز چلنے لگا-

اسی گاوں میں ایک باصلاحیت شخص “اسد” رہتا تھا- اسد شروع سے ہی گاڑیوں کی ڈیزائننگ میں بہت دلچسپی رکھتا تھا- وہ ایک فیکٹری لگانا چاہتا تھا مگر سرمائے کی کمی کا شکار تھا- اس گاوں میں سود پر قرضہ دینے پر پابندی تھی- اسی وجہ سے سودی بنک موجود نہیں تھے- یہاں اسلامی بنک موجود تھے-

سودی بنک کھاتے داروں سے تھوڑے سود پر پیسے لے کر زیادہ سود پر آگے دے دیتا ہے- لیکن اسلامی بنک ایک انویسٹمنٹ ادارہ ہوتا ہے- لوگ بنک میں اکاونٹ کھلوا کر اس میں پیسے انویسٹ کر دیتے ہیں- بنک اس پیسے سے مشترکہ کاروبار کرتا ہے-

جب اسد نے سنا کہ بنک اچھے کاروبار کے لیے اشتراکت کے لیے تیار ہے تو وہ بنک پہنچ گیا- اس نے بنک کے بورڈ کو گاڑیاں بنانے کے کاروبار پر پرزینٹیشن دی جو بورڈ کو پسند آئی- بنک نے اشتراکی کاروبار کی اجازت دے دی- ان کے درمیان ایک معاہدہ ہوگیا- معاہدے کے مطابق رقم بنک کی ہو گی اور دماغ اسد کا ہو گا- اس کاروبار کے نتیجے میں اگر منافع ہو تو وہ بنک کے کھاتہ داروں میں تقسیم کر دیا جائے گا- دوسری صورت میں بنک اور کھاتہ دار سب نقصان برداشت کریں گے- یوں نئے کاروبار شروع ہونے لگے –

اس معشیت میں قرضہ نہیں ہے- سب اپنی محنت کا پھل کھا رہے ہیں- غریب کا بھی بھلا ہو رہا ہے-   

(جاری ہے)  

وژن سیریز۔۔۔۔ (حصہ دوم) ۔۔۔ حصہ اول سے نکلےکچھ اصول

pindorabox

ویزن سیرز کے حصہ اول میں ہم نے سرمایہ داری نظام کو ایک کہانی کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی۔ آئیے اس کہانی سے نکلے کچھ اصول ذہن نشیں کر لیں-

سرمایہ داری نظام کی جڑ سود ہے- 

بنک ایک ایسا ادارہ ہے جو سرمایہ داری نظام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے- یہ ادارہ اپنے کھاتا داروں سے تھوڑے سود پر رقم موصول کرتا ہے اور پھر زیادہ سود پر وہ رقم آگے دے دیتا ہے- یوں بنک سرمائے کی گردش بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے-

سرمایہ داری نظام تین لوگوں کے گٹھ جوڑسے آگے بڑھتا ہے- بنکار، صنعتکار اور حکمران –

بنک قرضہ تین جہتی پالیسی  کے تہت دیتا ہے- اول، قرض صنعتکاروں کو دیا جاتا ہے- دوم ، قرض کنزیورمز کو دیا جاتا ہے- سوم ، قرض حکومت کو دیا جاتا ہے- صنعتکار اس قرض سے کارخانے لگاتے ہیں- ان کارخانوں سے بننے والا مال کنزیومرز خریدتے ہیں اور حکمران انفراسٹکچر بنا تے ہیں- یوں صنعتکار کی صنعت بڑھتی ہے، کنزیورمرز کا معیار زندگی بہتر ہوتا ہے اور سیاست دان کو ووٹ مل جاتے ہیں-

  سب سے زیادہ اس نظام سے بنکار، صنعتکار اور حکمران مستفید ہوتے ہیں- بنکار کسی محنت کے بغیر نوٹ پر نوٹ بناتا جاتا ہے- صنعتکار اپنے پرانے بزنس کے پرافٹ کو استعمال میں لائے بغیر قرضے پر نیا بزنس شروع کرتا ہے- وہ قرضہ اپنے نام پر لینے کی بجائے اپنی کارپوریشن کے نام پر لیتا ہے- کارپوریشن ڈوب جائے تو ڈیفالٹ ریجسٹر کرواتا ہے- بنک کارپوریشن کے اثاثے بیچ کر کچھ قرضہ وصول کرتی ہے- صنعتکار کا اپنا کچھ نہیں بگڑتا (اس کا پرانا بزنس تو چل ہی رہا ہے اور اس کا سرمایہ بھی محفوظ ہے)- حکمران قوم کے نام پر قرض لیتا ہے (یعنی لیتا تو حکمران ہے مگر دینا قوم نے ہوتا ہے) اور انفراسٹکچر بناتا ہے- اس سے اسے نیک نامی ملتی ہے- لوگ اس کے بنائے ہوئے پلوں اور انڈر پاسز کے نیچے اس کے گن گاتے ہیں (حالنکہ کوئی پاگل ہی ہو گا جو سودی قرض پر بنی چیز پر بھنگڑے ڈالے)- یوں حکمران کو ووٹ ملتے ہیں اور وہ دوبارہ آ کر قرض لیتا ہے- اگر وہ نہ بھی آسکے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس انفراسٹکچر ڈیویلوپمںٹ میں وہ اتنا کما گیا ہوتا ہے جو اس کی نسلوں کے لیے کافی ہوتا ہے- 

ویسے تو ٹیکس عوام سے لے کر عوام پر ہی خرچ کیا جانا چاہیے مگر سرمایہ داری نظام میں حکومت بنک کا سود لوٹانے کے لیے ٹیکس لیتی ہے- جوں جوں سود بڑھتا ہے ٹیکس بھی بڑھتا جاتا ہے- صنعتکار خام مال لیتا ہے تو اس پر ٹیکس لگ جاتا ہے- وہ مال برامد کرتاہے تو اس پر امپورٹ ٹیکس لگ جاتا ہے- وہ فیکٹری کے لیے پراپرٹی خریدتا ہے تو اس پر بھی ٹیکس لگ جاتا ہے- جب وہ فیکٹری رجسٹر کرواتا ہے تو رجسٹریشن ٹیکس لگ جاتا ہے- جتنے لوگ اس کی فیکٹری میں کام کرتے ہیں ان کہ تنخواہ میں سے انکم ٹیکس کٹنے لگتا ہے- جب فیکٹری کی پراڈکٹ مارکیٹ میں آتی ہے تو اس میں ان سب ٹیکسوں کی قیمت شامل ہوتی ہے- یوں پراڈکٹ مہنگی ہو جاتی ہے- اوپر سے ہر پراڈکٹ پر جنرل سیلز ٹیکس لگ جاتا ہے- یعنی وہ ٹیشو پپر کا ڈبہ جس کو بنا نے کے لیے صنعتکار نے مشینری پر ٹیکس، فیکٹری کی زمیں پر ٹیکس، خام مال پر ٹیکس (جس میں بجلی، گیس، پیٹرول وغیرہ کا ٹیکس بھی شامل ہے) دیا تھا اسے خریدنے لے لیے آپ کو جنرل سیزلز ٹیکس بھی ادا کرنا پڑتا ہے- جب حکومت سود لوٹانے میں ناکام ہوتی ہے تو بنک حکومت کو نئے ٹیکس لگانے اور پرانے ٹیکس بڑھانے پر مجبور کرتا ہے-  ان ٹیکسوں سے ایک مہنگائی کا طوفان آتا ہے- ایک عام آدمی کی تنخواہ آتی ہے تو اس میں سے ٹیکس کٹ چکا ہوتا ہے- جب وہ اس ٹیکس کٹی تنخواہ سے گھر کا سامان خریدتا ہے تو اس سامان پر بھی جنرل سیلز ٹیکس کٹ جاتا ہے- سامان اٹھا کر اپنی جس گاڑی میں رکھتا ہے تو اس گاڑی پر ٹوکن ٹیکس لگ جاتا ہے- گاڑی لے کر سڑک پر آتا ہے تو روڈ ٹیکس ادا کرنا پڑجاتا ہے- ٹیکس دے دے کر جو چار پیسے بچتے ہیں تو انھیں بنک میں رکھ دیتا ہے- بنک اسی کے پیسے اٹھا کر حکومت کو قرضہ دے دیتا ہے- حکومت اسی کے پیسے سے پل بنا کر اسے سے ٹیکس لے کر بنک کو دیتی رہتی ہے- اور تو اور وہ اپنی ہی رقم بنک سے نکلوانے جاتا ہے تو رقم نکلوانے کا ٹیکس لگ جاتا ہے- کہیں ٹرانسفر کرتا ہے تو ٹرانسفر ٹیکس لگ جاتا ہے- بیس سال ٹیکس دے دے کر جب وہ ایک پلاٹ خریدتا ہے تو پراپرٹی ٹیکس لگ جاتا ہے- حالنکہ جس رقم سے اس نے پلاٹ خریدا ہے وہ ٹیکس دے دے کر ہی تو اس حال کو پہنچی ہے- اس کے علاوہ بنک حکومت کوسبسڈی واپس لینے پر مجبور کرتا ہے- یوں حکمران تمام سبسڈی واپس لیتا ہے سوائے ان پراجیکٹس کے جن سے ووٹ ملتا ہو- اس کے علاوہ بنک حکمرانوں کو قومی ادارے بھی بیچنے پر مائل کرتا ہے-

ویسے تو اس نظام میں بنکاروں ، صنعتکاروں اور حکمرانوں کی چاندی نکلتی ہے مگر کرپٹ ممالک میں ان کی لاٹری اور بھی بڑی ہوتی ہے- چونکہ پولیس اور عدالتی نظام کمزور ہوتا ہے، صنعتکار، حکمران اور بنکار مل بیٹھتے ہیں- حکومت عالمی بنکوں سے قرضہ لے کر اپنی مرضی کے صنعتکاروں کو دلواتی ہے- صنعتکار اکثر قرضے معاف کروا لیتے ہیں- کافی سارا پیسہ کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے- انفراسٹکچر بھی اپنی مرضی کے لوگوں کی نگرانی میں بنوایا جاتا ہے- ان گنت پیسہ کک بیکس میں لیا جاتا ہے- جن ممالک کی قسمت زیادہ خراب ہوتی ہے وہاں صنعتکار ہی حکمران بن جاتا ہے- بنکار بھی اپنے ہی دوست ہوتے ہیں- جہاں اپوزیشن کو ہرانا ہو وہاں یہی پیسہ دریا کی طرح بہایا جاتا ہے- پولیس کو کھی ٹھیک نہیں کیا جاتا کیونکہ ناقص پولیس اس نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے- ایسے ملک  کا ٹیکس وصول کر نے والا ادارہ بھی کرپشن کی وجہ سے ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے- صنعتکار اور حکمران ملےہوتے ہیں لحازہ ٹیکس دیتے نہیں – سارہ ٹیکس کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے- ایسے ممالک کو بنک خوش ہو کر قرضے دیتے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ کرپٹ معاشرے کبھی ان کے چنگل سے نہیں نکل سکتے-

 اس نظام کا ایک اور خطرناک پہلو ریسیشن ہے – چونکہ اس نظام کی بنیاد سود اور روح قرضہ  ہے – اس لیے جب بھی کوئی ڈیفالٹ کرتا ہے (یعنی قرضہ لوٹا نہیں پاتا)  تو اس کا ایک زبردست ردعمل ہوتا – ریل سٹیٹ کی مثال لیتے ہیں – جب لوگ بنکوں سے قرضہ لے کر گھر بناتے ہیں تو گھر اور پلاٹ مہنگے ہو جاتے ہیں- چونکہ لوگ دھڑادھڑ گھر بنانے لگتے ہیں تو ریت سیمنٹ سریہ اینٹ وغیرہ جیسی چیزیں بھی مہنگی ہونے لگتی ہیں- فیکٹریاں ان چیزوں کی پروڈکشن بڑھا دیتی ہیں- یوں بہت سی نوکریاں پیدا ہوتی ہیں- جوں جوں وقت گزرتا ہے گھر اور مہنگے ہوتے جاتے – بنکوں سے قرضہ لیے بغیر گھر بنانا نا ممکن ہوجاتا ہے- بندہ کچھ پیسے بچاتا ہے تو گھر اور مہنگے ہو جاتے ہیں- اگلے سال تک کچھ اور بچاتا ہے تو گھر اور مہنگے ہو جاتے ہیں- یوں گھر بنانے کے لیے بنک کے قرضے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا-  آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس انڈسٹری کی بوم اصل زر پر نہیں بلکہ قرضے پر ہے- قیمتیں اوپر جا رہی ہیں اور معاشرے میں قرضہ بڑھ رہا ہے- اب فرض کریں کہ جن لوگوں کی ریت سیمنٹ سریہ اور اینٹ کی انڈسٹری میں نوکریاں لگی ہیں وہ بھی بنکوں سے قرضے لے کر گھر بنا لیتے ہیں اور اپنی تنخواہ سے ماہانہ قسطیں ادا کرتے ہیں- حکومت رئیل سٹیٹ انڈسٹری میں ریل پیل دیکھ پر ٹیکس بڑھا دیتی ہے- یوں گھروں کی قیمتیں اور بھی بڑھ جاتی ہیں- ایک وقت ایسا آتا ہے کہ قیمتیں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ عام آدمی قرضہ کے کر بھی گھر بنانے سے قاصر ہو جاتا ہے- یوں نئے لوگ گھر بنانا چھوڑ دیتے ہیں- یوں انڈسٹری کا “بلبلہ پھٹ” جاتا ہے- گھروں کی سیل کم ہونا شروع ہوتی ہے- انڈسٹری کی گروتھ رک جاتی ہے- کم پروفٹ کی وجہ سے بڑے سرمایہ دار پیسہ نکال کر کسی اور جگہ انویسٹ کر دیتے ہیں- گھروں کی سیل کم ہونے سے ریت سیمنٹ سریہ اور اینٹ کی فیکٹریوں کی سیل کم ہو جاتی ہے اور وہ اپنی پروڈیکشن کم کرنا شروع کرتی ہیں- جب یونٹ بند ہوتے ہیں تو ان فیکٹریوں میں ڈاون سائزنگ کے نام پر لوگوں کو نکال دیا جاتا ہے- اب جن لوگوں کی نوکریا ں چلی گئیں ان کے لیے مکان کی قسط دینا ناممکن ہوجاتا ہے- وہ ڈیفالٹ کرتے ہیں تو بنک ان کے گھروں پر قبضہ کر لیتا ہے- لوگ بےگھر ہو جاتے ہیں- یوں رئیل سٹیٹ  انڈسٹری مزید نقصان میں جانے لگتی ہے- غربت بڑھتی ہے- حکومت کا ٹیکس ریوینیو گھٹتا ہے- انڈسٹری کی حالت دیکھ کر بنک مزید قرضے دینا بند کر دیتے ہیں- یوں انڈشٹری بلکل ہی خاموش ہو جاتی ہے- ریت سیمنٹ سریہ اور اینٹ کی فیکٹریاں اپنے مزید یونٹ بند کر دیتی ہیں – مزید لوگ بیروزگار ہوجاتے ہیں- مزید لوگ مکانوں کی قسطیں نہیں دے پاتے – مزید غربت بڑھتی ہے- 

 اس نظام کا آخری اور سب سے خطرناک نتیجہ  یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں کچھ لوگ یا خاندان اتنے امیر ہو جاتے ہیں کہ ان کی دولت کا کوئی ہمسر نہیں رہتا- یہ دولت اس قدر ہوتی ہے کہ سارے ملک کی دولت مل کر بھی ان کی دولت سے کم ہوتی ہے- حکومت تک ان کے آگے بےبس ہوتی ہے- یہ سیاسی جماعتوں کے فنڈز میں کھل ہر حصہ ڈالتے ہیں اور اپنی مرضی کی پالیسیاں بناتے ہیں- سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ داری کر کہ کئی کمپنیوں کا کنٹرول سمبھال لیتے ہیں- یہ اپنی مرضی سے جنگیں کرواتے ہیں، اپنی فیکٹریوں کا اسلحہ بیچتے ہیں، پھر اپنی ہی کمپنیوں سے جنگ سے اجڑے ملکوں کی ریکوسٹرکشن کرتے ہیں- ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاھی میں ہوتا ہے-

(جاری ہے)      

 

وژن سیریز۔۔۔۔ آج کے سرمایہ داری نظام میں برا کیا ہے؟ نمبر ایک: سود

pindorabox

جدید اقتصادی نظام انتہائی پیچیدہ اصول و ضوابط پر مبنی ایک ایسا گورکھ دھندا ہے کہ جسے سمجھنا عام آدمی کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن لگتا ہے-  میں سمجھتا ہوں کہ تیسری دنیا اور خصوصی طور پر مسلم امہ کے زوال کی ایک بنیادی وجہ یہی اقتصادی نظام ہے- اسے اچھی طرح سمجھے بغیر حقیقی مسائل کا ادراک ممکن ہی نہیں ہے – اس مد میں عام آدمی کی نظر یا وژن کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر عام آدمی موجودہ دنیا کو سمجھ جائے، یا کم از کم نیو ورلڈ آرڈر کی بنیادی نوئیت سمجھ جاےؑ، تو وہ اس سے نکلنے کے طریقہ بھی ڈھونڈ لے گا-

میری کوشش ہو گی کہ انتہائی آسان الفاظ میں قاری کو اس دنیا کا اقتصادی نظام، اس میں موجود خرابیاں، اس کا اسلامی اقتصادی نظام سے تقابلی جائزہ اور اس تناظر میں پاکستان کے مساٰئل بیان کروں-

سرمایہ داری نظام کو سمجھنے سے پہلے یہ جا ننا ضروری ہے کہ کامیاب اقتصادی نظام کرتا کیا ہے؟ ایک اچھا اقتصادی نظام وہ ہے جس میں مال کسی ایک جگہ قید نہ ہو بلکہ وہ مسلسل حرکت میں رہے- اس مال سے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہوں- کوئی بھی اس دولت پر سانپ بن کر نہ بیٹھ سکے- گویا ہر اقتصادی نظام ایسے طریقے بتاتا ہے جس سے رفتارِ گردش زر  کو بڑھایا جاسکے-

 دولت کا چند ہاتھوں میں رک جانا ایک فطری عمل ہے- مثال کے طور پر کسی دور دراز علاقے میں ایک گاؤں ہے- وہاں “بشیر صاحب” کی دکان ہے- وہ ایک سال میں اس دکان سے 1000 روپے کما لیتے ہیں- ان کا سال کا کل خرچہ 200 روپے ہے- ان کے پاس 800 روپے منافع پڑا ہے- کیا وہ یہ رقم خرچ کریں گے؟ صرف مادی لحاظ سے سوچیں- کسی مذہب کو بیچ میں نہ لائیں- فرض کر لیں کہ دین ابھی اس گاوں میں نہیں پہنچا- آخر بشیر صاحب یہ پیسہ کیوں خرچ کریں گے؟ وہ اسے اپنے بڑھاپے کے لیے ، یا آنے والے کسی مصیبت کے وقت کے لیے رکھ دیں گے- وہ ساری رقم ان کی تجوری میں سڑتی رہے گی- یہی حال گاؤں کے باقی امیر لوگوں کا  ہوگا – اب ایک ایسے سسٹم کی ضرورت ہے جو بشیر صاحب سے یہ رقم نکلوائے اورنکلوائے بھی اس طرح کہ بشیرصاحب بھی خوش رہیں اور باقی لوگ بھی- یہ رقم معاشرے میں سب کے کام آئے-

سو جناب! اقتصادی ماہرین مل کر بیٹھے اور غور وفکر کرنے لگےکہ آخر ایسا کیا کریں کہ بشیر صاحب اپنی رقم خرچ کرنے پر آمادہ ہوجائیں- اس کاحل ان کے مادی دماغوں میں سود کی شکل میں آیا- انھوں نے سوچا کہ اگر بشیر صاحب سے کہا جائےکہ آپ اپنی رقم ایک سال کے لیے ہمیں دے دیں تو ہم آپ کو ہر سال 200 روپے یقینی منافع دیں گے- بشیر صاحب کے لیے اس سے اچھی ڈیل  اور کیا ہو گی کہ کسی محنت کے بغیر ان کی دولت میں اضافہ ہوگا- 800 روپے 1000 ہو جائیں گے – دو سال میں وہی رقم 1200 ہو جائے گی- اس ڈیل کو کارگر بنانے کے لیے ایک باقاعدہ ادارے کی ضرورت تھی- اس لیے حکومتِ وقت نے ایسا ادارہ بنانے کی اجازت دے دی جو لوگوں کو پرافٹ (سود) پر رقم دینے کی ترغیب دے اور پھر یہی رقم آگے زیادہ منافع پر کسی اور کو ادھار دے دے- اس ادارے کو بنک کہتے ہیں-

گاوؑں میں “ملک صاحب” نے ایک بنک بنا لیا اور جا کر “بشیر صاحب” کواکاونٹ کھولنےکی آفر کر دی- بشیر صاحب کو بھی بات پسند آئی اور انھوں نے 800 روپے بنک میں رکھ دیے- بنک نے اعلان کر دیا کہ یہاں سود پر قرضے دیے جاتے ہیں-

اسی گاوں میں ایک باصلاحیت شخص “اسد” رہتا تھا- اسد شروع سے ہی گاڑیوں کی ڈیزائننگ میں بہت دلچسپی رکھتا تھا- وہ ایک فیکٹری لگانا چاہتا تھا مگر سرمائے کی کمی کا شکار تھا- جب اسے آسان اِقساط میں قرضہ لینے کا ذریعہ نظر آیا تو وہ بنک پہنچ گیا- اس نے بینک سے 500 روپے اس وعدے کے ساتھ لیے کہ گاڑیوں کی فیکٹری لگا کر ایک سال میں 1000 روپے لوٹا دے گا- اسد نے بہت محنت سے فیکٹری لگائی- کئی لوگوں کو روزگار مل گیا- بہت جلد فیکٹری نے گاڑیوں کا پہلا سٹاک مارکیٹ میں سپلائی کر دیا-

“قدیر” متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا تھا- وہ کام کے سلسلے میں گاوؑں سے باہر جاتاتھا- اسے ایک گاڑی کی اشد ضرورت تھی- مگر اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے- قدیر نے جب مارکیٹ میں نئی گاڑی دیکھی تو اس کا بھی دل للچانے لگا- اسے کسی نے بتایا کہ بنک آسان اِقساط پر گاڑی دے رہا ہے- قدیر نے آوؑ دیکھا نہ تاوؑ اور سیدھا بنک پینچ گیا- بنک نے 20 روپے کی گاڑی سال میں 50 روپے لوٹانے کے وعدے پر قدیر کو لے دی-

آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ 800 روپے جو بشیر صاحب کی تجوری میں پڑے سڑ رہے تھے پورے گاوں میں پھیل گئے ہیں- فیکٹری لگ گئی ہے – نوکریاں مل گئیں ہیں- گاڑیاں بن رہی ہیں اور بک بھی گئی ہیں – لوگوں کا معیارِزندگی بہتر ہوا ہے- گویا مختصراً، سرمایہ داری نظام کی بنیاد سود پر ہے- ایک جگہ منجمد دولت کو سودی منافع کا لالچ دے کر نکلوا لیا جاتا ہے- پھر یہی رقم آگے بڑے سودی منافع پر دی جاتی ہے- چونکہ دنیا کے تمام بڑے آسمانی مذاہب سود کو حرام قرار دیتے ہیں اس لیے ضروری تھا کہ ایک سیکولر حکومت بنائی جائے- یہ ایک ایسی حکومت ہے جو صاف صاف کہتی ہے کہ سٹیٹ کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں- یقینً اگر خدا کو “ڈیلیٹ” کر دیں تو “سود” کے علاوہ کونسا “انسینٹو” ہے جو کسی امیر سے رقم نکوائے؟

کہانی وہیں سےشروع کرتے ہیں- “اختر” کسی اور گاوؑں میں رہتا تھا- اس نے ہمارے گاوں کی ترقی کا سنا تو امیگریشن لے کر ترقی یافتہ گاوؑں میں آگیا- اختر نے دیکھا کہ گاڑیوں کی صنعت میں ریل پیل (بوم) ہے- اَختر کے پاس سرمائے کی کچھ کمی تھی- وہ بھی بنک پہنچ گیا- بنک اب تک اسد سے 1000 روپیہ وصول کر چکا تھا- بنک نے بشیر صاحب کو 200 روپے منا فع بھی دے دیا تھے- قدیر بھی 50 روپے کی اقساط دے چکا تھا- یہ “کمال” دیکھتے ہوئے بہت سے لوگوں نے بنک میں کھاتے کھلوا لئے تھے- “ملک صاحب”، جو بنک کے مالک تھے، پھولے نہیں سما رہے تھے- ان کے ہاتھ پیسہ بنانے کا ایک ایسا طریقہ لگ گیا تھا جس میں کوئی محنت نہیں تھی- ادھر سے کم سود پر لیا اور آگے زیادہ سود پر دے دیا- بینک نے خوشی خوشی اختر کو بھی قرضہ دے دیا-

اختر نے محنت کی  اور چند ماہ میں ایک نئی گاڑی مارکیٹ میں لا کھڑی کی- یہ کار اسد کی کار سے اچھی تھی اور سستی بھی- اس لیے لوگوں نے یہ کار زیادہ خریدی – یہ بات اسد کے لیے پریشانی کا سبب بنی- اس نے سوچا کہ مجھے گاڑی 15 روپے میں پڑتی ہےاور میں مارکیٹ میں 20 روپے کی بیچتا ہوں اور یہ کمبخت اختر گاڑی 12 روپے میں بنا لیتا ہے- اس لیے مارکیٹ میں 17 روپے کی بیچ رہا ہے- اس کا مطلب ہے کہ مجھے اپنے” اینجینیرنگ پراسیسز”    کو بہتر بنانا ہے- اس کام کے لیے اسد نے اپنا ایک  ریسرچ انسٹیچیوٹ  بنالیا- جہاں گاڑیوں کے ماہر بیٹھ کر  ایجینرنگ کے نت نئے طریقے ڈھوندنےلگے- اختر کو بھی خبر ہو گئی – اختر نے بھی اپنا ریسرچ ڈپارٹمنٹ بنا لیا- یوں گاڑی کی صنعت میں انقلاب برپا ہو گیا – کئی نئے  “سٹینڈرڈ پروسیجرز” بننے لگے- نت نئی ٹیکنالوجی سامنے آنے لگی- اسے عرفِ عام میں “اوپن مارکیٹ کمیٹیشن” کہتے ہیں- گورنمنٹ نے جب دیکھا کہ کار انڈسٹڑی اب ایک “سٹنڈرڈ” بن چکی ہے تو اس نے ایک اینجینرنگ یونیورسٹی بنا دی- اب اختر اور اسد کی فیکٹریوں میں اس یونیورسٹی کے گریجویٹس کام کر رہے تھے-

آپ دیکھ رہے ہیں کہ گاوں کی مارکیٹ “بوم” کر رہی ہے- ایک طرف فیکٹریاں لگ رہی ہیں، دوسری طرف بھاری ریسرچ سے سائنسی ترقی کے نئے در کھل رہے ہیں، یونیورسٹیاں بن رہی ہیں – لوگوں کا معیارِزندگی بہتر ہو رہا ہے- ساری دنیا سے لوگ یہاں آ رہے ہیں- ہر کوئی اپنا “ٹائیلنٹ” یا ہنر لے کر یہاں آ رہا ہے- اسے اب “لینڈ آف آپرچونیٹی” کہا جانے لگا ہے- گاوؑں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے- سب کو رہنے کے لیے گھر چاہیے- گھر کم ہیں اور لوگ زیادہ ہیں – لحاظہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہاوسنگ سوسائٹیز شروع کی جایئں- یوں ایک نئی انڈسٹری کی بنیاد پڑی جسے عرف عام میں ریل سٹیٹ انڈسٹری کہتے ہیں-

“جمیل” کا بہت دل چاہتا تھا کہ اس کا بھی اپنا گھر ہو- اس نئے شہر کی چمک دمک اس کی آنکھوں کو خیرہ کرتی تھی- وہ کار انجینئرتھا اور اخترکی فیکٹری میں کام کرتا تھا- اس نے اپنا کیریر اسد کی فیکٹری سےشروع کیا تھا اور پھر اختر کی فیکٹری والوں نے بہتر تنخواہ پر اسے رکھ لیا تھا- اس کی تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ وہ گھر بنا لیتا- پھر اسے کسی نے بینک کے بارے میں بتا دیا- اس نے بینک سے آسان اقساط پر قرضہ لیا اور گھر بنا لیا-

جمیل کی طرح بہت سے لوگ گھر بنانے لگے- گھروں کی قیمتیں آسمانوں کو چھونے لگیں – سیمنٹ، بجری، لوہے کی انڈسٹری میں بھی بوم آگیا- مزید کئی لوگوں کو نوکریاں مل گئیں- اب ان صنعتوں نے بھی آپس میں مقابلے کے لیے ریسرچ کی – ظاہر ہے، پرافٹس آپ کی پراڈکٹ کے معیار کےمطابق ہی ہوتے ہیں- معیاری اور سستی چیز مارکیٹ پر بازی لے جاتی ہے- یوں مزید یونیورسٹیاں آباد ہونے لگیں- نت نئی ڈگریاں آفر ہونے لگیں- ہر بچہ اپنی مرضی سے ایک فیلڈ چنتا- اور گریجویشن کر کے اس فیلڈ سے متعلقہ انڈسٹری میں چلا جاتا- اب یہ گاوں نہ رہا تھابلکہ ایک “پروگرسیو” شہر بن چکا تھا-

“ملک صاحب” کا بنک ترقی کرتا کرتا ایک “کارپوڑیٹ ایمپائر” بن چکا تھا- اس کی شہر میں ان گنت شاخیں تھیں- ملک صاحب کی طرح شہر میں اور بھی کئی بنک بن گئے تھے- وہ بھی خوب کما رہے تھے-

شہر کی ترقی کی وجہ سے آبادی بڑھ رہی تھی- اس وجہ سے سرکار کی “بنیادی ڈھانچے کے اخراجات” ( انفراسٹکچر سپنڈنگ) بہت بڑھ چکی تھی- سیاست دانوں کو ووٹ لے کر دوبارہ آنے کے لیے یہ رقم چرچ کرنا پڑتی تھی- ہسپتالوں، سرکاری اداروں، سڑکوں ، پانی کانظام، سیوریج ، سرکاری ملازموں کی تنخواہیں اور ہزاروں خرچے اس کا بجٹ تباہ کر دیتے تھے- ہر سال حکومت کی کم آمدن کی وجہ سے ترقیاتی کام التوا کا شکار رہتے تھے- حکومت کم خرچ کرتی تو لوگ ناراض ہوتےاور ووٹ نہ دیتے- آخر حکومت کو بھی بنکوں میں اپنی فلاح نظر آئی- حکومت بھی بھاری سود پر ہرسال بنکوں سے قرض لیتی رہتی اور وقت کے ساتھ ساتھ لوٹاتی رہتی- ملک صاحب اور دوسرے بنکار امیر سے امیر ہوتے جا رہے تھےٓ ان کے پاس کئی بلین روپے تھے- ساری دنیا کی دولت ایک طرف اور ان کی ایک طرف-

اخترصاحب کی کار کی فیکٹری “گروپ آف انڈسٹریز” میں تبدیل ہو چکی تھی- انھوں نے “ریل اسٹیٹ” میں بھی سرمایہ داری کی ہوئی تھی، ان کا ایک گروپ شہر کی ٹاپ “فوڈ چین” بھی چلا رہا تھا- ان کے گودام بھی تھے- ہر نیا کام شروع کرنے کے لیے آسانی سے بنک سے قرضہ مل جاتا تھا-

بنکاروں کو معلوم تھا کہ صنعتکاروں کی صنعت جتنی پھیلے گی میرا بنک اتنا امیر ہو گا- وہ چاہتے تھے کہ صنعتکار زیادہ سے زیادہ انڈسٹری لگائیں- صنعتکارکو پتہ تھا کہ بینک ہے تو سرمایہ ہے- حکومت کو پتہ تھا کہ بینک سے قرضہ ملتا ہے اور صنعت سے ٹیکس- عوام کو پتہ تھا کہ اس گیم میں انھیں نوکریاں، گھر، گاڑیاں سب کچھ مل رہا ہے- ہر کوئی چاہتا تھا کہ یہ نظام قائم رہے- اس لیے سرکار صنعتوں کے اجرا کی کوشش میں لگی ہے- بینک قرضہ دے رہے ہیں- اور لوگ صبح سے شام تک کام کرہے ہیں اور ہر چیز خرید رہے ہیں-

 یوں حکومت، بینکار اور صنعتکار تینوں ہر وہ پالیسی اختیار کرنے لگے جس سے “جی ڈی پی” بڑھتا جائے- جی ڈی پی کا مطلب یہ ہے کہ اگر پچھلے سال 1000 ماچس فروخت ہوئی ہیں تو اس سال 1200 ماچس فروخت ہونی چاہیے- پچھلے سال 500 گاڑیاں فروخت ہوئیں تو اس سال ان کی تعداد 1000 ہونی چاہیے- زیادہ سے زیادہ نئی پراڈکٹس بھی مارکیٹ میں آنی چائیں- اس طرح ہمارا جی ڈی پی اتنےفیصد بڑھ جائے گا- یا سادے الفاظ میں اکانومی کا غبارہ اتنے فیصد مزید پھول جائے گا- حکومت کو ٹیکس اتنا زیادہ موصول ہوگا- اور بینک کے واجبات ادا ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے – بینک کی بھی ڈبل لاٹری نکلے گی-

اس غبارے کے اندر مزید ہوا ڈالنے کے لیے حکومت ، بینکار اور صنعتکار نے جو خاص پالیسیاں مرتب دیں ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں-

سب سے پہلے تو خرچ کرنے کا کلچر متارف کروایا گیا – مادہ پرستی عام کی گئی- لوگ ایک کار لیتے تو اس سے بہتر مارکیٹ میں آجاتی- اسے لیتے تو اس سے بہتر- ایک موبائل لیتے تو اس سے بہتر کی تمنا دل میں آجاتی- برینڈ متارف کروائے گئے- وہی پتلون جو 10 روپے کی آتی تھی اسے برینڈ کے نام سے 50 روپے کا بیچا گیا- جس کے پاس پیسے ہوتے وہ لے لیتا- جس کے پاس پیسے نہ ہوتے وہ للچاتا رہتا- یہاں تک کہ وہ خواہش کو پورا کرنے کے لیے بینک سے کریڈٹ کارڈ بنوا لیتا- اور پھر ہر پسند آنے والی چیز خرید لیتا- لوگوں کو اور خریدنے کی طرف راغب کرنے کے لیے سپر سٹور بنائے گئے- لوگ خریدنے 5 چیزیں آتے اور سپرسٹور کے جھانسے میں 20 خرید کرلے جاتے- مارکیٹنگ پر ریسرچ کی گئی اور نت نئے طریقوں سے لوگوں کو مال بیچا گیا-

 فیکٹریوں میں جب ورک فورس کم پڑی تو عورتوں کو گھروں سے برابری کے حقوق کے نام پر نکال کر کام پر لگا دیا گیا۔ آخر شہر کی پچاس فیصد آبادی جو خواتین پر مشتمل تھی کام نہ کرے تو اکانومی میں بوم کیسے آئے گی؟ اس سے بڑھ کر خواتین کے حسن کو استعمال کر کے مارکیٹنگ اور سیل برھا ئی گئی- کہیں عریاں اشتہار میں خاتون کو کار کے ساتھ کھڑا کیا گیا تو کہیں سیل گرل بنا کر اس کو ادائیں دکھانے پر لگا دیا گیا-

مینوفیکچرنگ مزید بڑھانے کے لیے ہر اس چیز کا پروسیسنگ یونٹ لگایا گیا جس کی شاید ضرورت بھی نہ تھی-  دودھ لوگ گوالوں کی بجائےٹیٹرا پیک ڈبے میں لینے لگے- بچے ماں کے دودھ کی بجائے “پاوڈرڈ ملک” لینے لگے- آٹا بےچارہ فائن آٹا بن گیا- سبزیاں تک کینڈ فوڈ میں تبدیل ہو گئیں- مکئی کارن فلیکس میں تبدیل ہو گئی- پانی تک منرل واٹر بوتل میں چلا گیا- ایک کلچر کے تہت ان چیزوں کو استعمال کرنے والوں کوماڈرن شہری بنا کر دکھایا گیا اور سادہ “نان پراسیسڈ” غزا استعمال کرنے والے کو پینڈو اور “بیکورڈ” کہلوایا گیا-   ایک کلاس سسٹم متارف کروایا گیاجس کے ذریعے امیروں کو ایک مختلف کلاس کی پروڈکٹس بیچی گئیں جو انتہائی مہنگی تھیں- نچلی کلاس والوں کو ان کی اوقات کےمطابق پروڈکٹس بیچے گئے-

مینوفیکچرنگ اور سیل بڑھانے کے لیے ایسی شرمناک انڈسٹریوں کو بھی خوب بڑھایا گیا جنھیں صدیوں سے انسان براسمجھتا تھا- اب خدا تو “ڈیلیٹ” ہو ہی چکا تھا- شراب کا کلچر عام کیا گیا- ڈرگز پھیلائی گیئں- اتنا تو کیا گیا کہ شراب پی کر آپ گاڑی نہیں چلا سکتے مگر گھر میں یا پب میں بیٹھ کر جتنی مرضی پیتے رہیں کیونکہ شراب بلین ڈالر انڈسٹری ہے- سگریٹ بھی بلین ڈالر انڈسٹڑی بن گئی- پورن بھی بلین ڈالر انڈسٹری بن گئی- گویا ہر کام جس سے اس شہر کی  “ویلوسٹی آف منی” بڑھ سکتی تھی وہ سودی بنکاروں، صنعتکاروں اور حکومت نے کیا-  بنک اپنے سٹاف کوہر سال ایک ٹارگٹ دیتا کہ اتنا منافع ہونا چاہیے – اب ظاہر ہے بنک کو منافع بڑھانا ہے تو زیادہ قرضے دینے ہیں- اس کے لیے بنک تین جہتی حکمت عملی اپناتا- ایک طرف تو حکومت کو دبا کر قرضے دیتا- حکومت کو انفراسٹرکچر پر خرچ کرنا ہوتا کیونکہ ووٹ بھی اسی پر انحصار کرتے تھے اور فیکٹریوں کی ترقی بھی اسی پر انحصار کرتی تھی- شہر بڑے ہوتے جا رہے تھے- اس بڑھتی آبادی کے لیےسہولیات فراہم کرنا آسان نہ تھا- ہر سڑک چند سال میں ہی ٹریفک کے لیے وبالِ جان بن جاتی- پھر خطیر رقم سے اسے دو رویا کیا جاتا- پھر چند سال میں بلاک ہوجاتی- بھر فلائی اور یا انڈرپاس بنائے جاتے- اسی طرح گاڑیوں اور فیکٹریوں کے دھوئیں سے بیماریاں بڑھ رہی تھیں- شراب کا بےجا استعمال، ڈرگز،  فاسٹ فوڈ اورپروسیسڈ فوڈ اور بے راہ روی سے ہسپتالوں میں رش بڑھ رہا تھا- خاندان کی بنیادی اکائی میاں بیوی کا رشتہ کمزور ہو جانے سے اکثر بچوں کا خرچہ بھی حکومت اٹھا رہی تھی اور بوڑھے افراد بھی حکومت کے اولڈہاوسز میں رہ رہے تھے- اس کے علاوہ پرانے قرضوں پر سود بھی دینا پڑ رہا تھا- بجٹ خسارہ ختم ہونے کاکوئی چانس ہی نہیں تھا- لحاظہ ہر سال مزید قرضے لینا پڑرہے تھے- دوسری طرف بنک ہر فیکٹری کے مالک کو نیا یونٹ لگانے کا درس دیتے تھےجوجدت ترازی یا “انوویشن” کو استعمال کرتے ہوئے نئی سے نئی پراڈکٹس بنائے اور “مارکیٹنگ” کے سچ جھوٹ کی طاقت سے اسے بیچے- تیسری طرف بینک عام لوگوں یا “کانزیومرز” کو خریدنے پر اکساتا- اس سارے عمل نے معاشرے میں ایک ایسی مادہ پرستی کو جنم دیا کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی- ویسے تواس پورے گیم میں بینکار اور صنعتکار دونوں نے بہت پیسہ بنایا لیکن بینکار صنعتکار سے بہت آگے نکل گیا-

ملک صاحب تو فوت ہو گئے مگر اب ان کے بچوں کی جایدادوں کی مالیت پوری دنیا کی دولت سے زیادہ ہو چکی تھی- ملک صاحب کے بڑے بیٹے نے دس سال قبل سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری شروع کر دی تھی- ہر بڑی کمپنی میں اس کےشئیر تھے- اس نے اسد اور اخترتک  کی کمپنیوں کے  بیس فیصد شئیر اٹھا لیے تھے- سادی بات کریں تو اب بینک بھی اس کا تھا اور کمپنیاں بھی اس کی تھیں- حکومت نے بھی اس سے بہت قرضہ لیا ہوا تھا- اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کوئی پالیسی اس کی اجازت کے بغیر نہیں بنتی تھی- سالوں کی سود خوری کے بعد ان کے پاس اتنا مال ہو گیا تھا کہ پوری سوسائیٹی ان کی غلام بن گئی تھی-

ان دنوں ایک نیا مسئلہ سر اٹھا نے لگا- سالہ سال کی پاگلوں کی طرح مینوفیکچرنگ اور سیل پالیسی سے شہر کے قدرتی ذخائر بری طرح متاثر ہوےؑ- گیس اور تیل کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے تھے- جنگل کٹ رہے تھے- گویا اس جی ڈی پی گروتھ کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ باقی دنیا کے تیل اور گیس کے”ریزورز” پر قبضہ کیا جائے- اب سب بینکاروں نے حکومت کے ساتھ مل کر جارہانہ حکمت عملی بنائی-  جو ملک اپنے ذخائر انھیں دے دیتا وہ دوست ملک کہلاتا اور یہ اپنی دولت کے منہ اس کے لیے کھول دیتے- اس ملک کی حکومت کو قرضے دیتے اور اسے اپنے سرمایہ داری نظام کے ماڈل پر ترقی کرنے پر لگا دیتے- جو ملک نہ مانتا اس کا کوئی دشمن ملک اپنے ساتھ ملا لیتے – ان کی جنگ کروا دیتے- دونوں ملکوں کو اپنا اسلحہ بیچتے – دوست کو سامنے سے، دشمن کو پیچھے سے اسلحہ بیچتے- جب ملک کمزور ہو جاتے تو جا کر اسے دلاسہ دیتے اور ساتھ خوب قرضہ دیتے- اگر کوئی ملک ان کے ماڈل پر ترقی کر بھی جاتا تو اس کے بنکیرز وہا ں کی حکومت سے مضبوط ہو جاتے- ہوں اس ملک کی بھی قسمت چند سرمایہ داروں کے ہاتھ میں چلی جاتی-

 آہستہ آہستہ دنیا کی اکثر حکومتیں ان کے قبضہ میں آ گئیں- انھوں اپنا ہر “پروسیس” ملکوں میں ایکسپورٹ کیا- جہاں لیبر سستی تھی وہاں اپنے کارخانے لگا لیے – ساتھ ہی اپنے بینکوں کی شاخیں اس ملک میں لگا دیں- اپنے “پروفیشنل ایتھیکز” دیے- عورتوں کو آزاد کروایا- شراب، فحاشی کا کلچر لائے- تمام ممالک میں ایک ایسی کلاس بن گئی جو بلکل ان کی “ڈیٹو کاپی” تھی- ان کی طرح بال بناتی، ویسے ہی شیو کرتی، ویسے ہی کپڑے پہنتی، اسی طرح دفاتر میں کام ہرتی، ویسے ہی گھر بناتی اور اپنی مکمل فلاح انھیں کے دیے ہوئے نظام کو سمجھتی- ان لوگوں کو “پروگریسو” اور “ماڈریٹس” کا نام دیا جاتا-

 اب حال ہہ ہے کہ ساری دنیا کی دولت ان کے پاس سمٹ کر جارہی ہے- ان کے شہر کی رانائیاں اس قدر بڑھ چکیں ہیں کہ ہر انسان ان کی طرف للچائی ہوئی نظر سے دیکھتا ہے- لوگ ان کے نظام سے ذہنی اور مالی لحاظ سے اتنا مرغوب ہو چکے ہیں کہ اسی نظام میں اپنی فلاح دیکھ رہے ہیں- اگر کسی کو حقیقت نظر آجائے اور وہ ان کے نظام کے خلاف کچھ بھی بولے تووہ دہشت گرد بن جاتا ہے- اس کی حکومت یا تو اسی ملک کی فوج سے گروادی جاتی ہے ، یا پابندیاں لگا کر اسے تباہ کردیا جاتا ہے، یا امن کے لیے خطرہ قرار دے کر فوجیں اتار دی جاتی ہیں- اب دنیا ان ہی کی ہے- دین بھی انھیں کے لیے ہے- انھیں کو سجدہ ہے- جو ان کے ساتھ مل جائے اس کی جنت ہے- جو ان کے خلاف ہوجائے اسے پتھروں کے دور میں بھیج دیا جاتا ہے-

اس کہانی کومیں نے بہت محنت سے ڈیزائن کیا ہے تاکہ عام آدمی کو سرمایہ داری نظام باآسانی سمجھایا جا سکے –

(جاری ہے)

 

Summarizing Lahore Orange Line Train Project Lahore

Lahore Orange Line Train Project (Lahore):
============================

Financed by: China
Through: The Export-Import Bank of China
Loaned Amount: 1.7 Billion USD (approx)
Payment Arriving time: 5 Years (from China to Pakistan)
Grace Period: 2 Years (First installment after two years)
Total Loan period: 15 Years
Interest Rate: 6%
Type: Concessional Loan (That’s what china says)
Agreement Bonding: Chinese contractors must be used in Project (This means part of china’s loaned money will go back to china)
No other than Pakistani or Chinese contractor is allowed.

Interconnecting Points:
============================
1) “Earlier, in mid-1990s, the government of Japan had pledged a much softer loan of US $500 million at 0.03% interest rate and payable in 30 years for the Metro System of Lahore, following nearly the same alignment as what is now the Lahore Metro Bus Service. The loan was suspended following nuclear tests by Pakistan. Upon normalisation of political environment, the government of Japan diverted the loan to revamp the once popular Karachi Circular Railway system into a modern Metro System connecting all parts of the city of Karachi. A very soft loan of over $1.4 billion stands committed by Japan. But, the project is struggling since the last over five years largely on account of incompetence of the Sindh government” .. ( So PML N government is doing better job )

2) Orange line is being constructed by many contractors from Pakistan and from china it’s a joint venture of the China Railways (CR) and Norinko. As part of the agreement for the project, Chinese contractors are responsible for construction but they have said that they could subcontract electrical and mechanical works to Pakistani companies. Habib Construction Pakistan is working on Civil works right now.

3) It must be very well understood that this amount is a commercial loan on soft terms dedicated to specific projects largely with Chinese contractors. It is by no means a gift from China to Pakistan as being largely publicized.

4) This project is under construction and is expected to be completed by October 2017

5) The recent anger of Prime Minister on NAB is due to arrest of Orange Line project’s contractor Mr. Amir Latif on charges of fake payments in another project.

6) The Orange Line Metro will run on a 27.1-kilometer track, of which 25.4 kilometers will be elevated. The service will initially benefit around 250,000 passengers a day. The capacity will be increased to 500,000 passengers a day by 2025.

Sources:
http://china.aiddata.org/projects/37280?iframe=y
http://www.brecorder.com/taxation/181/1260181/…
http://defence.pk/…/china-signs-funding-agreement-for-lah…/…
http://www.pakistantoday.com.pk/…/nab-arrest-of-orange-lin…/
https://en.wikipedia.org/wiki/Orange_Line_(Lahore_Metro)

Researcher: Syed M. Shoaib

Understanding Multi Gardens B17’s confusing Geography  [ Let’s clear some misconception]

Understanding Multi Gardens B17’s confusing Geography [ Let’s clear some misconception]

B17 Multi-gardens is a beautiful project of Multi Professional Cooperative Housing Society  (MPCHS) that exists at the western edge of Islamabad. MPCHS is already famous for its highly successful project in E11 which is known as Islamabad-Gardens.  They are also doing a commendable job in F17. Due to its prime location (that connects  KPK, Punjab, Islamabad) and easy approach from Islamabad (due to upcoming Margalla Avenue) and Goodwill of developers (MPCHS)  it has become one of the prime prospect of investment and living.

Geographically, Multi-gardens society is very difficult to understand as everyone refers it as “B17”. The purpose of this blog is to give an understanding of Geographical situation of Multi-Gardens  which is reasonably complicated.

Multi-Gardens Location explaination. Map source: http://wikimapia.org/#lang=ur&lat=33.649351&lon=72.970848&z=12&m=b

Multi-Gardens Location explaination (click to enlarge). Map source: http://wikimapia.org/#lang=ur&lat=33.649351&lon=72.970848&z=12&m=b

 

Although most of the public  call it “B17 Multi-Gardens”.  In reality, Multi-gardens is a very large project, probably largest in terms of co-operative society projects  that almost covers 12000 kanals. It is divided into six blocks i.e. A,B,C,D,E and F block.  With respect to official Islamabad map: Block A exists in sector “A17”, Block B exists in “B17”. Block C exists partly in “B17” and partly in “B18”. Block D exists in “B18”. Block E and Block F exist in A19. As we all know, Islamabad limit terminates at “17” series sectors i.e. A17,B17,C17,D17,E17,F17,G18,G17 and I17,  Block A (A17), Block B (B17) and Block C (B17/18) comes under the fold of CDA and rest of the blocks i.e. D, E and F are present in Rawalpindi. I have tried to show an approximate location of every block with respect to Islamabad map taken from Wikimedia.

An approximate illustration of Multi-Garden's blocks vis a vis Islamabad map

An approximate illustration of Multi-Garden’s blocks vis a vis Islamabad map [closer look] (Click to Enlarge)

Multi-Garden society was launched in two phases i.e. phase 1 and phase 2. Phase-1 comprises of Block A, B and C. Phase-2 (also known as Multi-Garden extension or Multi-Gardens II) comprises of Block D,E and F. Although people generally believe that both phases are located in Islamabad sector B17. But CDA, through a public announcement (given below), clearly stated that multi-gardens II is not located within CDA boundaries. Hence, it is outside Islamabad limits.

CDA Notice regarding societies that exist outside Islamabad limits

CDA Notice regarding societies that exist outside Islamabad limits (Click to Enlarge)

According to CDA website Multi-Gardens Phase 1 was given NOC on 30-01-2008. The map of the Phase 1 on CDA website has all three blocks mentioned (A,B,C). Link: http://www.cda.gov.pk/housing/society.asp?varId=6 . But CDA website marks Multi-Gardens Phase 2 beyond Capital limits. Link: http://www.cda.gov.pk/housing/society.asp?varId=10. It is clearly written: ” Sponsors of the scheme shall obtain Formal NOC from concerned Local Development Agency” (Probably Rawalpindi Development Authority in this case). The F-block map is not yet approved by CDA. Hopefully it will get approved soon like block D and E.

A comparison of Multi-Garden 1 and Multi-Garden 2 from CDA website

A comparison of Multi-Garden 1 and Multi-Garden 2 from CDA website

This split of Multi-Gardens between Islamabad and Rawalpindi (a society that spans two cities) puts forward an interesting question. Will residents of Block D,E and F have to go to Pindi offices (e.g. Passport office) to get public services? What will be written on their NICs? “Living in Rawalpindi” or “Islamabad”? I tried to ask this question from MPCHS representatives in their G8 office. Although they clearly told me that D,E and F blocks are in Rawalpindi (Taxila) but they refrained to comment on what will be metioned on CNICs 😉 I was also unable to get the answer to the question that why CDA has given NOC to block C (part of Multi Garden 1) despite of the fact that it is partially present in B-18 as according to CDA Islamabad ends at 17 series sectors.

Anyways, Islamabad or not, the society seems to be very serious about developing it’s quality infrastructure as their other projects. They clearly say that it’s going to have “in built modern amenities of a comfortable lifestyle.”

Syed M. Shoaib.

What “Circular Debt” actually is? In context of Pakistan’s FUEL and ELECTRICITY crisis

I have created a small block diagram to demonstrate what “Circular Debt” actually is. Just for education purposes. It’s a very generalized description of ongoing scenario. You can enlarge the diagram by clicking on it.

Whare is circular debt? What is Gardishi Qarzay?

Whare is circular debt? What is Gardishi Qarzay?

Insane Information warfare between PML N and PTI hawks on Wikipedia

On Facebook I saw following statement of Salman Shahbaz regarding ownership of Ramzan Sugar Mills.
1

On google I found a wikipedia page to Ramzan Sugar Mills.  The page was edited more than 20 times on 16th September as shown in this screenshot 🙂

Untitled

The page (After the news) on 16th Sep. 2014 was edited to show Imran Khan as the owner of sugar mill. Lolx. (I hope some PML N worrier did it 😉 )

3

The page was again edited by someone (I hope from PTI)  to show Salman Shahbaz as owner of sugar mills. The editing took place within 20 minutes of last editing. The thumbnail is given below:

4

Afterwards someone changed owner to unknown person “Fahad Saeed”. (Na tumharyie na humaryie…. kisi or ka naam dalo or jang khatam karo 😉 )

5

The same day again some PML N worrier changed the ownership back to Imran Khan as shown in following thumb:

6

This whole thing can be seen by clicking “view history” link of this page: http://en.wikipedia.org/w/index.php?title=Ramzan_Sugar_Mills

All what we are looking at is very unethical information warfare between PML N and PTI. It is creating a very bad image of Pakistan around the world. How much further we are going to fall for this insane battle?

* Note:   I have no idea who owns this mill. I hope the actual owner is written on the page from “2013” which was not edited until 16th September. (Allah knows the best) The screenshot is provided below:

2

Syed Shoaib