وژن سیریز۔۔۔۔ (حصہ سوم) ۔۔۔ اسلام میں سود کی حرمت

pindorabox

 

ویزن سیرز کے حصہ اول اور دوم میں ہم نے سرمایہ داری نظام کو ایک کہانی کی مدد سے سمجھا اور اس سے کچھ  اصول اخز کیے ۔ پہلے دونوں حصوں سے سود کی حرمت کے اسباب صاف معلوم ہو جاتے ہیں- سود کی سب سے بڑی برائی دولت کا کچھ ہاتھوں میں جمع ہو جانا اور ایک خاص طبقے کا معاشرے پر مکمل قبضہ جما لینا ہیں-

آئیے ایک آسان مثال لیتے ہیں- فرض کریں کہ ایک ملک میں کل پانچ آدمی رہتے ہیں- ملک کی کل دولت دس سونے کے سکے ہیں- ایک آدمی اعلی طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے پاس تین سکے ہیں- تین آدمی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے پاس دو سکے ہیں- ایک بندہ غریب طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے پاس ایک سکہ ہے- گویا اعلی طبقے والے کے پاس تین سونے کے سکے ہیں اور باقی کل معاشرے کے پاس سات سکے ہیں- متوسط طبقے کا ایک آدمی فیکٹری لگانا چاہتا جس کے لیے اسے تین سکوں کی ضرورت ہے- یہ آدمی اعلی طبقے والے سے سود پر ایک سکہ حاصل کر لیتا ہے- اب اس کے پاس تین سکے ہیں مگر اسے ایک سال بعد اعلی طبقے کے شخص کو دو سکے لوٹانے ہیں- اس نے فیکٹری لگائی اور مال معاشرے میں بیچا – سال کے آخر میں اس نے دو سکے اعلی طبقے کے آدمی کو واپس کر دیے- آپ نے دیکھا کہ معاشرے میں سے ایک ایکسٹرا سکہ بغیر کسی محنت کے نکل کر امیر آدمی کی جھولی میں جا چکا ہے- اب اعلی طبقے کے آدمی کے پاس چار سکے ہیں اور باقی معاشرے کے پاس چھ سکے ہیں-  اب اگلے سال دوبارہ چھوٹے طبقےکا کوئی آدمی سود پر ایک سکہ لے لیتا ہے اور سال کے اختتام پر دو سکے واپس کر دیتا ہے- دوسر ے سال کے اختتام پر اعلی درجے کے آدمی کے پاس پانچ سکے ہیں اور باقی معاشرے کے پاس بھی پانج سکے ہیں- یہی کام اگر ہر سال ہوتا جائے تو ہر سال کے اختتام پر اعلی درجے کے آدمی کے پاس ایک سکہ برھتا جائے گا اور باقی معاشرے میں  سے ایک سکہ کم ہوتا جائے گا- چار سال بعد معاشرے میں صرف ایک سکہ ہو گا اور اعلی طبقے کے آدمی کے پاس نو سکے ہوں گے- لحاظہ ثابت ہوا کہ سودی نظام کی وجہ سے معاشرہ کچھ ہی عرصے میں سود پر قرضہ دینے والے کی گرفت میں چلا جائے گا!

یہی بنیادی وجہ ہے کہ اسلام نے نہ صرف سود کو حرام قرار دیا بلکہ سودی نظام پر اللہ اور اس کے رسول کی جنگ نافذ کی- قرآن میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

“اے ایمان والو! اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو اگر تم مؤمن ہو۔ اور اگر تم نے سود نہ چھوڑا تو اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ ہاں اگر توبہ کرلو توتمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ ظلم کرو ،نہ تم پر ظلم کیا جائے”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورة البقرة

گویا اسلامی حکومت پر فرض ہے کہ وہ اپنے زیرسایہ سارے علاقے سے سود کا مکمل خاتمہ کرے گی اور جو لوگ  مزاحمت کریں ان سے جہاد کرے گی – یہ اس لیے ہے کہ اگر سود ہو گا تو حکومت پھر اسلام کی نہیں بلکہ اسی کی ہو گی جو سود پر منافع کماتا ہے-

غور کریں کہ دین نے اسلامی معاشرے میں زنا اور چوری کی سزائیں تو رکھی ہیں لیکن سود لینے والے کی کوئی سزا نہیں رکھی- یہ اس لیے ہے کہ اگر سود موجود ہے تو معاشرہ و حکومت اسلامی ہو ہی نہیں سکتے-  اسلام جس معاشرے کا تصور پیش کرتا ہے اس میں سود کی گنجائش ہے ہی نہیں – لحاظہ جب سود ہو گا ہی نہیں تو سزا کیسی؟

اسلام زکواۃ اور صدقات کی ترویج سود کے خاتمے کا حکم دیتا ہے- گویا سرمایہ داری نظام کی بنیاد سود اور اسلامی نظام کی بنیاد زکوۃ ہے-

اللہ تعالی فرماتے ہیں:

اللہ سود کو تباہ کر دیتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے اور خدا کسی ناشکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا . ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورة البقرة

اس آیت میں اللہ تعالی فرما رہے ہیں کہ مجموئی اعتبار سے ہمیشہ گھاٹے کا سودہ ہے- اس سے سوسایٹی کو مجموئی دولت میں کمی آتی ہے اور سود پر قرضہ دینے والے کی انفرادی دولت بڑھتی ہے- ہم نے اس بات کو اوپر دی ہوئی دس سونے کے سکے والی مثال سے اچھی طرح سمجھ لیا ہے- آئیے اب پہلے حصے والی مثال کو اسلامی نظام کے تہت لا کر سمجھتے ہیں-

اسی  دور دراز علاقے میں وہی والا گاؤں ہے- وہاں “بشیر صاحب” کی دکان ہے- وہ ایک سال میں اس دکان سے 1000 روپے کما لیتے ہیں- ان کا سال کا کل خرچہ 200 روپے ہے- ان کے پاس 800 روپے منافع پڑا ہے- یہ منافع ان کی تجوری میں ایک سال سے پڑا ہے- اسلامی حکومت نے سود پر پابندی لگائی ہوئی ہے اور ہرسال استعمال سے زائد رقم پر زکواۃ لازمی ہے- سال کے ختم ہوتے ہی بشیر صاحب نے 800 روپے میں سے ڈھائی فیصد زکواۃ ادا کر دی- یہ پیسہ جن غریب لوگوں تک پہنچا انھوں نے اپنے گھر راشن ڈلوانے کے لیے بشیر صاحب کی دکان کا رخ کیا- کوئی کپڑے لینے آ گیا تو کوئی جوتے- بشیر صاحب کی دکان کی سیل میں حیرت انگیز اضافہ ہوا- یہی ہر دوسرے امیر آدمی کے ساتھ ہوا- کسی کو اپنے فارم کے دودھ دہی کی سیل بڑھتی محسوس ہوئی تو کسی امیر کی چکی پر آٹا زیادہ بکنے لگا- وہ پیسہ جو تجوری میں سڑرہا تھا وہ نکل کر غریب تک پہنچا اور پھر واپس امیر تک پہنچ گیا- اس سال سیل برھنے کی وجہ سے بشیر صاحب نے 1000 کی بجائے1200 روپے کمائے- اب ان کی تجوری میں 800 کی بجائے 1000 روپیہ تھا- گویا امیر آدمی کو زکواۃ دینا کا فائدہ ہوا اور ساتھ ساتھ غریب آدمی کا بھی بھلا ہو گیا-

جب بشیر صاحب کی سیل بڑھی تو انھوں نے فیکٹری سے زیادہ مال اٹھانا شروع کر دیا- یوں فیکٹریوں کا منافع بھی بڑھنے لگا۔ نئے یونٹ لگنے لگے- اگلے سال بشیر صاحب نے زیادہ زکواۃ نکالی- اور یوں معشیت کا پہیہ اور بھی تیز چلنے لگا-

اسی گاوں میں ایک باصلاحیت شخص “اسد” رہتا تھا- اسد شروع سے ہی گاڑیوں کی ڈیزائننگ میں بہت دلچسپی رکھتا تھا- وہ ایک فیکٹری لگانا چاہتا تھا مگر سرمائے کی کمی کا شکار تھا- اس گاوں میں سود پر قرضہ دینے پر پابندی تھی- اسی وجہ سے سودی بنک موجود نہیں تھے- یہاں اسلامی بنک موجود تھے-

سودی بنک کھاتے داروں سے تھوڑے سود پر پیسے لے کر زیادہ سود پر آگے دے دیتا ہے- لیکن اسلامی بنک ایک انویسٹمنٹ ادارہ ہوتا ہے- لوگ بنک میں اکاونٹ کھلوا کر اس میں پیسے انویسٹ کر دیتے ہیں- بنک اس پیسے سے مشترکہ کاروبار کرتا ہے-

جب اسد نے سنا کہ بنک اچھے کاروبار کے لیے اشتراکت کے لیے تیار ہے تو وہ بنک پہنچ گیا- اس نے بنک کے بورڈ کو گاڑیاں بنانے کے کاروبار پر پرزینٹیشن دی جو بورڈ کو پسند آئی- بنک نے اشتراکی کاروبار کی اجازت دے دی- ان کے درمیان ایک معاہدہ ہوگیا- معاہدے کے مطابق رقم بنک کی ہو گی اور دماغ اسد کا ہو گا- اس کاروبار کے نتیجے میں اگر منافع ہو تو وہ بنک کے کھاتہ داروں میں تقسیم کر دیا جائے گا- دوسری صورت میں بنک اور کھاتہ دار سب نقصان برداشت کریں گے- یوں نئے کاروبار شروع ہونے لگے –

اس معشیت میں قرضہ نہیں ہے- سب اپنی محنت کا پھل کھا رہے ہیں- غریب کا بھی بھلا ہو رہا ہے-   

(جاری ہے)  

Leave a comment