وژن سیریز۔۔۔۔ (حصہ دوم) ۔۔۔ حصہ اول سے نکلےکچھ اصول

pindorabox

ویزن سیرز کے حصہ اول میں ہم نے سرمایہ داری نظام کو ایک کہانی کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی۔ آئیے اس کہانی سے نکلے کچھ اصول ذہن نشیں کر لیں-

سرمایہ داری نظام کی جڑ سود ہے- 

بنک ایک ایسا ادارہ ہے جو سرمایہ داری نظام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے- یہ ادارہ اپنے کھاتا داروں سے تھوڑے سود پر رقم موصول کرتا ہے اور پھر زیادہ سود پر وہ رقم آگے دے دیتا ہے- یوں بنک سرمائے کی گردش بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے-

سرمایہ داری نظام تین لوگوں کے گٹھ جوڑسے آگے بڑھتا ہے- بنکار، صنعتکار اور حکمران –

بنک قرضہ تین جہتی پالیسی  کے تہت دیتا ہے- اول، قرض صنعتکاروں کو دیا جاتا ہے- دوم ، قرض کنزیورمز کو دیا جاتا ہے- سوم ، قرض حکومت کو دیا جاتا ہے- صنعتکار اس قرض سے کارخانے لگاتے ہیں- ان کارخانوں سے بننے والا مال کنزیومرز خریدتے ہیں اور حکمران انفراسٹکچر بنا تے ہیں- یوں صنعتکار کی صنعت بڑھتی ہے، کنزیورمرز کا معیار زندگی بہتر ہوتا ہے اور سیاست دان کو ووٹ مل جاتے ہیں-

  سب سے زیادہ اس نظام سے بنکار، صنعتکار اور حکمران مستفید ہوتے ہیں- بنکار کسی محنت کے بغیر نوٹ پر نوٹ بناتا جاتا ہے- صنعتکار اپنے پرانے بزنس کے پرافٹ کو استعمال میں لائے بغیر قرضے پر نیا بزنس شروع کرتا ہے- وہ قرضہ اپنے نام پر لینے کی بجائے اپنی کارپوریشن کے نام پر لیتا ہے- کارپوریشن ڈوب جائے تو ڈیفالٹ ریجسٹر کرواتا ہے- بنک کارپوریشن کے اثاثے بیچ کر کچھ قرضہ وصول کرتی ہے- صنعتکار کا اپنا کچھ نہیں بگڑتا (اس کا پرانا بزنس تو چل ہی رہا ہے اور اس کا سرمایہ بھی محفوظ ہے)- حکمران قوم کے نام پر قرض لیتا ہے (یعنی لیتا تو حکمران ہے مگر دینا قوم نے ہوتا ہے) اور انفراسٹکچر بناتا ہے- اس سے اسے نیک نامی ملتی ہے- لوگ اس کے بنائے ہوئے پلوں اور انڈر پاسز کے نیچے اس کے گن گاتے ہیں (حالنکہ کوئی پاگل ہی ہو گا جو سودی قرض پر بنی چیز پر بھنگڑے ڈالے)- یوں حکمران کو ووٹ ملتے ہیں اور وہ دوبارہ آ کر قرض لیتا ہے- اگر وہ نہ بھی آسکے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس انفراسٹکچر ڈیویلوپمںٹ میں وہ اتنا کما گیا ہوتا ہے جو اس کی نسلوں کے لیے کافی ہوتا ہے- 

ویسے تو ٹیکس عوام سے لے کر عوام پر ہی خرچ کیا جانا چاہیے مگر سرمایہ داری نظام میں حکومت بنک کا سود لوٹانے کے لیے ٹیکس لیتی ہے- جوں جوں سود بڑھتا ہے ٹیکس بھی بڑھتا جاتا ہے- صنعتکار خام مال لیتا ہے تو اس پر ٹیکس لگ جاتا ہے- وہ مال برامد کرتاہے تو اس پر امپورٹ ٹیکس لگ جاتا ہے- وہ فیکٹری کے لیے پراپرٹی خریدتا ہے تو اس پر بھی ٹیکس لگ جاتا ہے- جب وہ فیکٹری رجسٹر کرواتا ہے تو رجسٹریشن ٹیکس لگ جاتا ہے- جتنے لوگ اس کی فیکٹری میں کام کرتے ہیں ان کہ تنخواہ میں سے انکم ٹیکس کٹنے لگتا ہے- جب فیکٹری کی پراڈکٹ مارکیٹ میں آتی ہے تو اس میں ان سب ٹیکسوں کی قیمت شامل ہوتی ہے- یوں پراڈکٹ مہنگی ہو جاتی ہے- اوپر سے ہر پراڈکٹ پر جنرل سیلز ٹیکس لگ جاتا ہے- یعنی وہ ٹیشو پپر کا ڈبہ جس کو بنا نے کے لیے صنعتکار نے مشینری پر ٹیکس، فیکٹری کی زمیں پر ٹیکس، خام مال پر ٹیکس (جس میں بجلی، گیس، پیٹرول وغیرہ کا ٹیکس بھی شامل ہے) دیا تھا اسے خریدنے لے لیے آپ کو جنرل سیزلز ٹیکس بھی ادا کرنا پڑتا ہے- جب حکومت سود لوٹانے میں ناکام ہوتی ہے تو بنک حکومت کو نئے ٹیکس لگانے اور پرانے ٹیکس بڑھانے پر مجبور کرتا ہے-  ان ٹیکسوں سے ایک مہنگائی کا طوفان آتا ہے- ایک عام آدمی کی تنخواہ آتی ہے تو اس میں سے ٹیکس کٹ چکا ہوتا ہے- جب وہ اس ٹیکس کٹی تنخواہ سے گھر کا سامان خریدتا ہے تو اس سامان پر بھی جنرل سیلز ٹیکس کٹ جاتا ہے- سامان اٹھا کر اپنی جس گاڑی میں رکھتا ہے تو اس گاڑی پر ٹوکن ٹیکس لگ جاتا ہے- گاڑی لے کر سڑک پر آتا ہے تو روڈ ٹیکس ادا کرنا پڑجاتا ہے- ٹیکس دے دے کر جو چار پیسے بچتے ہیں تو انھیں بنک میں رکھ دیتا ہے- بنک اسی کے پیسے اٹھا کر حکومت کو قرضہ دے دیتا ہے- حکومت اسی کے پیسے سے پل بنا کر اسے سے ٹیکس لے کر بنک کو دیتی رہتی ہے- اور تو اور وہ اپنی ہی رقم بنک سے نکلوانے جاتا ہے تو رقم نکلوانے کا ٹیکس لگ جاتا ہے- کہیں ٹرانسفر کرتا ہے تو ٹرانسفر ٹیکس لگ جاتا ہے- بیس سال ٹیکس دے دے کر جب وہ ایک پلاٹ خریدتا ہے تو پراپرٹی ٹیکس لگ جاتا ہے- حالنکہ جس رقم سے اس نے پلاٹ خریدا ہے وہ ٹیکس دے دے کر ہی تو اس حال کو پہنچی ہے- اس کے علاوہ بنک حکومت کوسبسڈی واپس لینے پر مجبور کرتا ہے- یوں حکمران تمام سبسڈی واپس لیتا ہے سوائے ان پراجیکٹس کے جن سے ووٹ ملتا ہو- اس کے علاوہ بنک حکمرانوں کو قومی ادارے بھی بیچنے پر مائل کرتا ہے-

ویسے تو اس نظام میں بنکاروں ، صنعتکاروں اور حکمرانوں کی چاندی نکلتی ہے مگر کرپٹ ممالک میں ان کی لاٹری اور بھی بڑی ہوتی ہے- چونکہ پولیس اور عدالتی نظام کمزور ہوتا ہے، صنعتکار، حکمران اور بنکار مل بیٹھتے ہیں- حکومت عالمی بنکوں سے قرضہ لے کر اپنی مرضی کے صنعتکاروں کو دلواتی ہے- صنعتکار اکثر قرضے معاف کروا لیتے ہیں- کافی سارا پیسہ کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے- انفراسٹکچر بھی اپنی مرضی کے لوگوں کی نگرانی میں بنوایا جاتا ہے- ان گنت پیسہ کک بیکس میں لیا جاتا ہے- جن ممالک کی قسمت زیادہ خراب ہوتی ہے وہاں صنعتکار ہی حکمران بن جاتا ہے- بنکار بھی اپنے ہی دوست ہوتے ہیں- جہاں اپوزیشن کو ہرانا ہو وہاں یہی پیسہ دریا کی طرح بہایا جاتا ہے- پولیس کو کھی ٹھیک نہیں کیا جاتا کیونکہ ناقص پولیس اس نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے- ایسے ملک  کا ٹیکس وصول کر نے والا ادارہ بھی کرپشن کی وجہ سے ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے- صنعتکار اور حکمران ملےہوتے ہیں لحازہ ٹیکس دیتے نہیں – سارہ ٹیکس کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے- ایسے ممالک کو بنک خوش ہو کر قرضے دیتے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ کرپٹ معاشرے کبھی ان کے چنگل سے نہیں نکل سکتے-

 اس نظام کا ایک اور خطرناک پہلو ریسیشن ہے – چونکہ اس نظام کی بنیاد سود اور روح قرضہ  ہے – اس لیے جب بھی کوئی ڈیفالٹ کرتا ہے (یعنی قرضہ لوٹا نہیں پاتا)  تو اس کا ایک زبردست ردعمل ہوتا – ریل سٹیٹ کی مثال لیتے ہیں – جب لوگ بنکوں سے قرضہ لے کر گھر بناتے ہیں تو گھر اور پلاٹ مہنگے ہو جاتے ہیں- چونکہ لوگ دھڑادھڑ گھر بنانے لگتے ہیں تو ریت سیمنٹ سریہ اینٹ وغیرہ جیسی چیزیں بھی مہنگی ہونے لگتی ہیں- فیکٹریاں ان چیزوں کی پروڈکشن بڑھا دیتی ہیں- یوں بہت سی نوکریاں پیدا ہوتی ہیں- جوں جوں وقت گزرتا ہے گھر اور مہنگے ہوتے جاتے – بنکوں سے قرضہ لیے بغیر گھر بنانا نا ممکن ہوجاتا ہے- بندہ کچھ پیسے بچاتا ہے تو گھر اور مہنگے ہو جاتے ہیں- اگلے سال تک کچھ اور بچاتا ہے تو گھر اور مہنگے ہو جاتے ہیں- یوں گھر بنانے کے لیے بنک کے قرضے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا-  آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس انڈسٹری کی بوم اصل زر پر نہیں بلکہ قرضے پر ہے- قیمتیں اوپر جا رہی ہیں اور معاشرے میں قرضہ بڑھ رہا ہے- اب فرض کریں کہ جن لوگوں کی ریت سیمنٹ سریہ اور اینٹ کی انڈسٹری میں نوکریاں لگی ہیں وہ بھی بنکوں سے قرضے لے کر گھر بنا لیتے ہیں اور اپنی تنخواہ سے ماہانہ قسطیں ادا کرتے ہیں- حکومت رئیل سٹیٹ انڈسٹری میں ریل پیل دیکھ پر ٹیکس بڑھا دیتی ہے- یوں گھروں کی قیمتیں اور بھی بڑھ جاتی ہیں- ایک وقت ایسا آتا ہے کہ قیمتیں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ عام آدمی قرضہ کے کر بھی گھر بنانے سے قاصر ہو جاتا ہے- یوں نئے لوگ گھر بنانا چھوڑ دیتے ہیں- یوں انڈسٹری کا “بلبلہ پھٹ” جاتا ہے- گھروں کی سیل کم ہونا شروع ہوتی ہے- انڈسٹری کی گروتھ رک جاتی ہے- کم پروفٹ کی وجہ سے بڑے سرمایہ دار پیسہ نکال کر کسی اور جگہ انویسٹ کر دیتے ہیں- گھروں کی سیل کم ہونے سے ریت سیمنٹ سریہ اور اینٹ کی فیکٹریوں کی سیل کم ہو جاتی ہے اور وہ اپنی پروڈیکشن کم کرنا شروع کرتی ہیں- جب یونٹ بند ہوتے ہیں تو ان فیکٹریوں میں ڈاون سائزنگ کے نام پر لوگوں کو نکال دیا جاتا ہے- اب جن لوگوں کی نوکریا ں چلی گئیں ان کے لیے مکان کی قسط دینا ناممکن ہوجاتا ہے- وہ ڈیفالٹ کرتے ہیں تو بنک ان کے گھروں پر قبضہ کر لیتا ہے- لوگ بےگھر ہو جاتے ہیں- یوں رئیل سٹیٹ  انڈسٹری مزید نقصان میں جانے لگتی ہے- غربت بڑھتی ہے- حکومت کا ٹیکس ریوینیو گھٹتا ہے- انڈسٹری کی حالت دیکھ کر بنک مزید قرضے دینا بند کر دیتے ہیں- یوں انڈشٹری بلکل ہی خاموش ہو جاتی ہے- ریت سیمنٹ سریہ اور اینٹ کی فیکٹریاں اپنے مزید یونٹ بند کر دیتی ہیں – مزید لوگ بیروزگار ہوجاتے ہیں- مزید لوگ مکانوں کی قسطیں نہیں دے پاتے – مزید غربت بڑھتی ہے- 

 اس نظام کا آخری اور سب سے خطرناک نتیجہ  یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں کچھ لوگ یا خاندان اتنے امیر ہو جاتے ہیں کہ ان کی دولت کا کوئی ہمسر نہیں رہتا- یہ دولت اس قدر ہوتی ہے کہ سارے ملک کی دولت مل کر بھی ان کی دولت سے کم ہوتی ہے- حکومت تک ان کے آگے بےبس ہوتی ہے- یہ سیاسی جماعتوں کے فنڈز میں کھل ہر حصہ ڈالتے ہیں اور اپنی مرضی کی پالیسیاں بناتے ہیں- سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ داری کر کہ کئی کمپنیوں کا کنٹرول سمبھال لیتے ہیں- یہ اپنی مرضی سے جنگیں کرواتے ہیں، اپنی فیکٹریوں کا اسلحہ بیچتے ہیں، پھر اپنی ہی کمپنیوں سے جنگ سے اجڑے ملکوں کی ریکوسٹرکشن کرتے ہیں- ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاھی میں ہوتا ہے-

(جاری ہے)